Wednesday, June 14, 2017

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

ایک شادی کے گھر میں ایک کھاتے پیتے گھرانے کی ادھیڑ عمر خاتون سب سے الگ ایک پلنگ پر بیٹھی تھیں ۔ میز بان خواتین سمیت کوئی بھی انکی طرف متوجہ یا مخاطب نہ ہوتاتھا۔ مہمانوں میں سے ایک خاتون کو ان کا اس طرح الگ تھلگ بیٹھنا عجیب سا لگا انہوں نے خاتون سے دعا سلام کے بعد دریافت کیا کہ وہ سب سے الگ تھلگ کیوں بیٹھی ہیں۔

خاتون نے جواب دیاکہ "شاید آپ مجھے نہیں جانتی ہیں ۔ میں فلاں کی فلاں بیٹی ہوں جس نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی"۔ لہذہ لوگ ان خاتون کے ساتھ میل جول زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی برسوں پہلے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی، اب ان کے اپنے بچے شادی کے لائق تھے اس واقعے کو برسوں گزر گئے تھے، والدین نے بھی شاید ان کا گناہ معاف کردیا تھا لیکن معاشرے نے انہیں اب بھی معاف نہیں کیا تھا۔ برادری کو اب بھی یاد تھا کہ انہوں نے برادری کا قانون توڑا تھا۔ ان کی اولاد کے لیے برادری کا کوئی فرد رشتہ ڈالنے کو تیار نہیں تھا۔

چند برس پہلے کراچی میں ایک نوجوان لڑکی نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ مل کر [وہی جسے اردو میں آشنا کہتے ہیں تو بہت معیوب لگتا ہے لیکن انگریزی میں اسکی معیوبیت محبوبیت میں بدل جاتی ہے] اپنے والدین کو ذبح کردیا تھا بہت سال اسکا کیس عدالت میں چلا اور بالآخر اسے عمر قید ہوگئی۔

ایک شادی شدہ 35 سالہ عورت، دو بچوں کی ماں، جس کی بیٹی خود دو سال بعد شادی کی عمر کی ہوجائے گی اور جس کی چھ چھوٹی بہنیں ابھی شادی کی عمر کو پہنچ رہی ہیں۔ موبائل فون اورفیس بک پر کسی سے افئیر چلانے کے بعد گھر سے بھاگ کر کراچی آگئی ہے اور اسی شخص کے ساتھ اس کے گھر پر رہ رہی ہے۔اس نے عدالت میں شوہر پر جھوٹے سچے الزام لگا کر خلع کا مقدمہ بھی دائر کردیا ہے۔

اس کا باپ میرے سامنے بیٹھا اپنی بیٹی کے کئے پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کررہا تھا اور ساتھ اسکے لیے فکر مند بھی تھا کہ کسی طرح میں اس سے رابطہ کر کے اسے سمجھا بجھا کر گھر واپس آنے پر رضامند کرلوں ۔ چند سال پہلے جو بندہ لمبا چوڑا، سیاہ بال، کلین شیوہوتا تھا اور جس کے چہرے پر ہر وقت ایک مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی آج میرے سامنے شکن آلود لباس ، سفید بال ، سفید بڑھی ہوئی داڑھی میں پریشان حال بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے اس کی مزید چھ بیٹیوں کا تاریک مستقبل بھی تھا جسے بچانے کے لیے وہ میرے تعاون کا طلبگار تھا۔

اب اگر اس خاتون کا شوہر یا باپ یا بھائی اسے قتل کر ڈالیں تو ایک دنیا اسکی حمایت میں ،اسکے قاتل کی مذمت میں فصلی بٹیروں کی طرح نکل آئے گی۔ این جی اوز شخصی آزادی اور انسانی حقوق کے حق میں بیان دیں گی، موم بتی مافیا اسکی تصویر سامنے رکھ کر چراغ جلائے گی، اخباروں میں تصاویر شایع ہونگی اور کچھ دن بعد کسی نئے اسکینڈل کے ساتھ یہ ساری مافیائیں ایک نیا واویلا کرنے چل پڑیں گی۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں۔ جہاں خاندان، محلہ، ہمسائیگی اور برادری سسٹم ابھی تک موجود ہے، کوئی ایک خاندان بھی سب سے کٹ کر الگ تھلگ ہوکر نہیں رہ سکتا، جہاں ایک گھر میں پکے کھانے کی خوشبو کو ہم دوسرے کے گھر جانے سے نہیں روک سکتے وہاں ہم ایک گھر کی رسوائی کو دوسرے کے گھروں تک پھیلنے سے کیسے روک سکتے ہیں ۔

ہمارے معاشرے کی بُنت ایسی ہے کہ یہاں کسی کی بیٹی یا بہن یا بیوی کے اس طرح کسی کے ساتھ گھر سے بھاگ جانے پر اس گھر کے مردوں کو ساری برادری اور محلے کے سامنے سر نیچا کر کے زندگی گزارنی پڑتی ہے، جہاں اگر بڑی بہن کو صرف طلاق ہوجائے تو چھوٹی بہنوں کے رشتوں کا کال پڑ جاتا ہے، کجا بڑی بہن گھرسے بھاگ جائے وہ بھی شادی کے اتنے سالوں بعد۔

مذکورہ خاتون نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا ہوگا کہ اس کے اس قدم کے بعد ا سکی بہنوں کا کیا ہوگا۔ اسکی اپنی بیٹی کو بیاہنے کون آئے گا۔انہیں ساری عمر اس بات کا طعنہ سننا پڑے گا بلکہ یہ ان کا تعارف بن جائے گا کہ یہ اس ایکس وائی زیڈ خاتون کی بیٹی یا بہن ہے جو فلاں کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اس کی فیملی کو برادری میں اور محلے میں کس ذلت کا سامنا کرنے پڑے گا۔ کیا یہ اس پوری فیملی کا سماجی قتل یا سماجی ریپ نہیں ہے جو اس خاتون کے ہاتھوں ہوا۔

انسانی جان کے قتل پر تو ہر عدالت سے سزا ہوجاتی ہے، انسانی اور خاندانی عزت کے قتل یا سماجی ریپ کی کوئی سزا کیوں نہیں۔ کچھ دن پہلے ایک ماں نے اپنی گھر سے بھاگ جانے والی بیٹی کو سر پر اینٹ مار کر مار ڈالا تھا۔ کیا غلط کیا تھا۔ اس معاشرے میں اسے روز زندہ درگور ہونا تھا، قتل کر کے پھانسی چڑھ جانا اسے نسبتاً آسان لگا ہوگا۔

جب کسی ناخواندہ خاندان یا دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والی پہلی تعلیم یافتہ لڑکی یا پہلی نوکری پیشہ کوئی لڑکی اپنی زندگی کے ایسے فیصلے خود کرنے لگتی ہے تو وہ اپنے پیچھے آنے والی بے شمار لڑکیوں پر تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کرآتی ہے۔ کیا ایسی بیٹیوں اور ان کو سپورٹ کرنے والی این جی اوز نے ان خاندانوں اور پیچھے رہ جانے والی بہنوں اور خاندان کی دیگر لڑکیوں کے بارے میں سوچا ہے کہ ان کا یہ ایک غلط قدم ان کے پیچھے آنے والی کتنی ہی لڑکیوں کی زندگی تباہ کرسکتا ہے، ان پر تعلیم ، ترقی اور بعض اوقات تو زندگی کے دروازے بھی بند کرسکتا ہے ۔

کیا ان خاندانوں کے سماجی قتل یا سماجی ریپ کے لیے اس معاشرے میں کوئی انصاف ہے، کیا ایسے قاتلوں کے لیے کوئی سزا ہے۔ کیا ان خاندانوں کی ریہیبی لٹیشن کے لیے کوئی انسٹیٹیوٹ ہے، ان کے حقوق کے لیے کوئی این جی او آواز اٹھائے گی ۔ گھر سے بھاگ کر شادی کرلینے والی کے تو 'انسانی حقوق' ہوتے ہیں لیکن پیچھے جن کی زندگیاں تباہ ہوتی ہیں ان کے کوئی حقوق نہیں ہوتے، وہ تو شاید انسان بھی نہیں ہوتے۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

😐😐😐😐😐😐😐😐

یہ بلاگ 13 جون 2017 کو دلیل ڈاٹ کام پر شایع ہوچکا ہے۔

--------------------------------------------------------------

خواتین اور بچیوں سے متعلق مزید بلاگز:

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے، I , II

نو عمر بچیوں کی حمایت

ویمن ایمپاورمنٹ

امید کی کرن