اپنے ادارے کے فیلڈ اسٹاف کے لیے ایک لیکچر کی تیاری کے دوران انٹرنیٹ ریسرچ کرتے ہوئے خیال آیا کہ Women Empowerment کی اردو کیا ہوگی ۔ " خواتین کی خود مختاری" یہ اصطلاح ذرا کرخت یا سخت اردو لگی جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے Women Empowerment کا مطلب یا مقصد مردوں سے مقابلہ کرنا یا ان کو اپنے اشاروں پر چلانا ہو ۔ یہ سوچ کر کہ ایک بہتر اور نسبتاً قریب تر اصطلاح کیا ہو ایک سنجیدہ فیس بک گروپ میں اور اپنی فیس بک وال پر پوسٹ کی کہ ویمن ایمپاورمنٹ کا اردو مترادف کیا ہوگا۔ جو پہلا کمنٹ آیا وہ تھا ، "مردوں کی شامت"، دیگر کمنٹس عورت راج، فی میل ڈامینیشن، عورت کی لگام اس کے ہاتھ میں دینا، مردوں کی قید، غیر متوازن معاشرہ، این جی اوز کا ذریعہ معاش وغیرہ تھے ۔ یاد رہے کہ یہ رائیں مردوں اور عورتوں کی دونوں کی تھیں اور کافی حد تک تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کی تھیں۔ ان خواتین میں زیادہ تر وہ خواتین تھیں جو اپنے فیصلے خود کرنے کی عادی ہیں، جو اپنے گھروں میں فیصلہ کن مقام پر فائز ہیں۔ اور ایسے حضرات جو اپنے دفاتر میں اپنی تعلیم یافتہ اور روشن خیال دوسرے الفاظ میں خودمختار خواتین کولیگز کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان سے دوستی پر بظاہر فخر کرتے ہیں ۔ خیر اس ورزش کے نتیجے میں خود مختاریِ خواتین سے بہتر ایک اصطلاح حاصل ہوئی تقویت کاریِ نسواں یا خواتین کو تقویت دینا جو Women Empowerment کے معنی کے نزدیک تر ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ Women Empowerment / تقویت کاریِ نسواں ہے کیا ؟ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے تو ایک ریسرچ پیپر میں اس کی جو تعریف ملی وہ کچھ ایسے تھی " خاندان، محلے اور معاشرے میں خواتین کی حالت بہتر بنانا، خواتین کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی آزادی دینا، خاندانی معاملات میں خواتین کو شریک کرنا اور انکی رائے کو اہمیت دینا، زندگی، غذائیت ، صحت، تعلیم، روز گار میں بیٹے اور بیٹیوں یا مرد و عورت میں تفریق نہ کرنا"
اقوام متحدہ کے مطابق women empowerment کے پانچ جز ہیں ۔
1- خواتین میں اپنی ذات کی اہمیت کا احساس
2- مختلف معاملات میں انتخاب کا حق
3- مواقع اور وسائل تک رسائی کا حق
4- گھر اور گھر سے باہر اپنی زندگی پر اپنا اختیار
5- مصنفانہ سماجی اور معاشی ترقی کے لئے اثر انداز ہونے کی قابلیت
تقویت کاری نسواں کا تصور صنفی مساوات سے جڑا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق "صنفی مساوات سے مراد مردو خواتین / بچوں اور بچیوں کے لیے مساوی حقوق، مساوی مواقع اور مساوی ذمہ داریاں ہیں۔" صنفی مساوات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ مرد و عورت مختلف ہیں لیکن دونوں انسان ہیں اور صرف اس بنا پر کہ ان میں سے ایک عورت ہے اسے اچھی غذا، تعلیم، اور دیگر حقوق / مواقع سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اب مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس سارے معاملے میں مرد کا تو کہیں ذکر ہی نہیں نہ ہی اس سے کہیں کسی مرد کی تضحیک ہوتی ہے نا ہی اس کی تعظیم میں کمی آتی ہے۔
اصل میں جب کوئی بھی خواتین کی خود مختاری [دراصل بہتری یا تقویت] کی بات کرتا ہے تو اس سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ خواتین کی خودمختاری کا مطلب مردوں سے مقابلہ ہے ، یا خواتین کی مادر پدر آزادی ہے کہ خواتین دندناتی پھریں اور جو چاہیں کریں ، ان سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ وہ کسی کو جوابدہ نہ ہوں۔ اور یہ تصور شاید این جی اوز، یا ہمارے ملک کی ایک مشہور وکیل ٹائپ کی خواتین کے حلیے اور رویئے کو دیکھ کر آیا ہے ۔ ایسی مادر پدر آزادی تو ایک متوازن گھرانے میں مردوں کو بھی نہیں دی جاتی ، تو خواتین کو کیسے مل سکتی ہے۔ اور یہ غلط فہمی نہ صرف حضرات کو ہے، خواتین کی ایک بڑی تعداد کا بھی اس اصطلاح کے بارے میں یہی تصور ہے ۔ خواتین کی بہتری یا خود مختاری مردوں سے مقابلہ نہیں ہے یا مردوں کو نیچا دکھانا نہیں ہے، خواتین کی بہتری کا مطلب زندگی کے مسائل اور مصائب میں مرد کا ساتھ دینا اور ہاتھ بٹانا ہے۔ خواتین کی بہتری کا مطلب ایک صحتمند اور تعلیم یافتہ معاشرہ کا قیام ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی بچیوں اور خواتین کی حالت کیوں بہتر بنائیں۔ کیوں کر انہیں اچھی غذا دیں، کیوں کر انہیں تعلیم دیں اور کیوں کر انہیں اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے یکساں مواقع دیں۔ وہ اپنی زندگی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں کیوں رکھیں۔
پاکستان میں ہر 100خواتین کے مقابلے میں 102 مرد ہیں مطلب پاکستان کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ خواتین میں خواندگی کا تناسب 47 فیصد ہے ۔ 50 فیصد بچیاں 19 سال کی عمر سے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں ۔ ان میں سے 70 فیصد بچیاں اگلے سال ہی ماں بن جاتی ہیں ۔ یعنی ان بچیوں کی اپنی نشوونما مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ ایک اور جسم کی پرورش شروع کر دیتی ہیں، جو ساری غذائیت اسی بچی کے جسم سے حاصل کرتا ہے ۔ یاد رہے کہ پاکستان میں دو تہا ئی آبادی خط غربت سے نیچے رہتی ہے مطلب 60 فیصد کے لگ بھگ افراد ایک دن میں جتنی غذائیت کی ضرورت ان کے جسم کو ہوتی ہے ان کی ایک دن کی آمدنی انہیں وہ غذائیت فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے ۔ اور یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جہاں آبادی کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے وہاں بچوں کو غذا ، تعلیم اور علاج کے لیے بچیوں پر فوقیت دی جاتی ہے ۔ بچیوں کے "گرم غذائیں" کھانے پر پابندی ہوتی ہے ۔ کہ وہ جلدی بڑی ہوجائیں گی تو ان کی شادی کی فکر کرنی ہوگی ۔ ایسے پس منظر میں جب ایک غذائیت کی کمی کا شکار بچی اپنے اندر ایک اور بچے کی پرورش کر رہی ہوگی تو اس کی خود کی صحت اور اس آنے والے بچے کی صحت کے معیار کا اندازہ خود ہی کر لیجئے ۔ اور اس ٹین ایج یا کم عمر ی کے حمل اور بچے کی پیدائش کی پیچیدگیاں اور نقصانات ایک علیحدہ موضوع ہیں۔
غذائیت کی کمی نہ صرف بچوں اور بچیوں کو متعدی امراض کے لیے آسان شکار بنا دیتی ہے اور وہ آئے دن بیمار رہتے ہیں بلکہ غذائیت کی کمی کا شکار بچے/بچیاں اسکول میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرے ان کے سیکھنے کی صلاحیت مختلف غذائی اجزاء اور نمکیات کی کمی سےمتاثر ہوتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو بھی غذا مہیا ہے اس میں سے بچی کو بھی برابر کی غذا کیوں نہ دی جائے صرف اس لیے کہ وہ بچی ہے۔ ایک صحت مند بچی نا صرف اپنے جائز حق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہے ، وہ اپنے خاندان کے لیے ایک بہتر مددگار ہاتھ بھی ہوسکتی ہے ۔ اسی بچی نے آگے جا کر ماں بننا ہے بیٹیوں کی بھی اور بیٹوں کی بھی ۔ اگر ماں صحت مند نہ ہوگی تو آپ صحتمند بیٹے اور ایک صحت مند قوم کیسے حاصل کر سکیں گے ۔ کیا ایک ملک غذائیت کی کمی کا شکار بیٹوں پر مشتمل ورک فورس سے اپنی معاشی ترقی کا ٹارگٹ پورا کر سکتا ہے ۔
تعلیمی میدان میں 70فیصد مردوں کے مقابلے میں 47 فیصد خو اتین خواندہ ہیں ان میں پی ایچ ڈی خواتین بھی شامل ہیں اور وہ بھی جو انگوٹھا لگانے کے بجائے اپنا نام لکھ پڑھ سکتی ہیں ۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی نہ صرف اپنی صحت کا زیادہ بہتر خیال رکھ سکتی ہے۔ بلکہ اپنے والدین ، بہن بھائیوں کی صحت کا بھی ۔ تعلیم یافتہ لڑکی اپنے بچوں کی بھی بہتر پرورش کر سکتی ہے۔ تربیت یافتہ لڑکی اپنے اور اپنے والدین یا خاندان کے لیے اضافی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ تعلیم شادی کی عمر میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے۔ جو خواتین اور بچوں کی صحت کے مسائل کے بہت سے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے ۔ تعلیم یافتہ خاتون اپنے بچوں کے بارے میں بہتر فیصلہ کرنے میں مشورہ دے سکتی ہے ۔ پاکستان کی 50 فیصد آبادی کو تعلیم سے محروم رکھ کر ہم 100 فیصد خواندگی کا خواب کبھی پورا نہیں کر سکتے۔
برسر روزگار خواتین ، چاہے وہ گھر بیٹھ کر کماتی ہوں یا گھر سے باہر جا کر، اپنے گھر کے لیے ایک مددگار ہاتھ ہیں۔ ان کی
اضافی آمدنی گھر میں ہی خرچ ہوتی ہے اور بچوں کی بہتری، خصوصاً صحت اور تعلیم پر خرچ کی جا سکتی ہے۔ پاکستان ہیلتھ اینڈ ڈیموگرافک سروے 13/2012 کے مطابق 15 سے 49 سال تک کی 28٫5 فیصد خواتین پچھلے ایک سال کے دوران زیر ملازمت تھیں ۔ ان میں سے پچاس فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی آمدنی خود خرچ کر سکتی ہیں ۔ یعنی ذاتی آمدنی رکھنے والی نصف خواتین کو اپنی آمدنی اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا اختیار نہیں ۔ تعلیم یافتہ خواتین نسبتاً زیادہ آزادی سے اپنی آمدنی اپنی مرضی سے خرچ کر سکتی ہیں، یا زیادہ عمر کی خواتین نسبتاً زیادہ آزاد تھیں اسی طرح شہری خواتین یا اونچی کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین کو اپنی آمدنی پر زیادہ کنٹرول حاصل تھا ۔
اس کے علاوہ ایک بر سر روزگار خاتون کسی مشکل وقت میں مثلاً کسی حادثے کی صورت میں فوری مدد دے سکتی ہے۔ جیسے ہسپتال لے جانا وغیرہ کیوں کہ وہ گھر سے باہر جانےاور باہر کی دنیا کا سامنا کرنے کی عادی ہوتی ہے ۔ایک صاحب آمدن خاتون اپنے خاندان کے فیصلوں میں حصہ لے سکتی ہے اور اس کی بات سنی اور مانی جا سکتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کے بچے زیادہ پر اعتماد اور خود پر انحصار کرنے والے ہوتے ہیں ۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ساری خواتین کو زبر دستی ملازمت پر بھیج دو، لیکن جو خواتین تعلیم یافتہ ہیں اور چاہتی ہیں کہ اپنی تعلیم کام میں لائیں یا اپنی آمدنی میں اضافہ کر یں انہیں یکساں مواقع حاصل ہوں ۔ یہ فیصلہ کے خاتون نے جاب کرنی ہے یا نہیں کرنی اسکا اپنا فیصلہ ہونا چاہیے ۔ یا جو خواتین غربت کا شکار ہیں اور انہیں کوئی تربیت دے کر یا کوئی ہنر سکھا کر ان کی غربت کو کم کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر غذا یا بہتر تعلیم دے سکیں انہیں اس کی آزادی ہو۔ بات پھر وہیں پر آجاتی ہے کہ کیا اپنی آدھی آبادی کو گھر میں بند کر کے ایک ملک سو فیصد معاشی اور سماجی ترقی کر سکتا ہے ۔
اگر ایک بچی/ خاتون صحت مند، تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم نہ ہوگی تو اپنے بارے میں کوئی فیصلہ خودلینے میں ہچکچاہٹ یا گریز کا شکار رہے گی ۔ اور گھریلو معاملات میں بولنے میں بھی مثلاً سروے کے مطابق صرف 11 فیصد خواتین اپنی صحت کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کی مجاز تھیں ۔ یعنی بیمار ہونے کی صورت میں علاج کیا جائے یا نہیں یا کہاں سے علاج کیا جائے اور کب اس کا فیصلہ کیا جائے کہ اب علاج کی ضرورت ہے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بہت سی خواتین کراچی میں بھی اگر بچہ کو بخار ہو گیا تو شام تک اس انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں کہ شوہر گھر آئے گا تو پیسے دے گا یا بچے کو علاج کی غرض سے کہیں لے کر جائے گا۔ کیا ایک خاتون کو اتنا اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے علاج یا اپنے بچے کے علاج کے لیے خود قدم اٹھا سکے ۔ پھر اگر ہرسال ہمارے ہر 1000 زندہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 74 بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے اور 89بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے مر جاتے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے ۔
سروے کے مطابق صرف 9 فیصد خواتین اپنی فیملی یا رشتہ داروں کے گھر جانے کے بارے میں اکیلے فیصلہ کر سکتی ہیں ۔ 40 فیصد خواتین کو کسی بھی قسم کے فیصلے میں شامل نہیں کیا جاتا ۔ 75 فیصد گھرانوں میں صرف مرد کو ہی تمام فیصلے کرنے کا اختیار ہے ۔ اس کی مرضی ہے کہ وہ عورت سے مشورہ کرے یا نہ کرے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی بچیوں کو اچھی غذا ، تعلیم، اور شعور دینے کے حق میں ہیں یا نہیں۔ جب women empowerment کی اصطلا ح استعمال کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ہمارا دھیان خصوصاً مردوں کا اپنی موجودہ یا ہونے والی بیگمات کی طرف جاتا ہے، کہ اس کے نتیجے میں ان کے مقابلے میں آکھڑی ہوں گی، اور ان پر حاوی ہو جائیں گی۔ ان پر اپنے فیصلے ٹھونسیں گی۔ لیکن صرف بیگمات ہی خواتین نہیں ہیں، آپ کی بہنیں اور بیٹیاں بھی خواتین ہیں ۔ اور انہیں بھی ایک اچھی اور بہتر زندگی گزارنے کا حق ہے ۔
اپنی بہن یا بیٹی کے بارے میں سوچیں کہ اسکی صحت کمزور ہو، اسے علاج کی ضرورت ہو اور اس کے سسرال والے یا شوہر اس کے علاج پر توجہ نہ دیتے ہوں ، وہ دن بہ دن موت کی جانب بڑھ رہی ہو، اور تعلیم کم یا نہ ہونے کے باعث شوہر سے علاج کے بارے میں بات کرنے کی ہمت نہ رکھتی ہو یا پے درپے بچوں کی پیدائش سے اس کی صحت تباہ ہورہی ہو اور وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر بچوں کی پیدائش میں وقفہ نہ کرسکتی ہو، یا اس بارے میں شوہر سے بات نہ کرسکتی ہو۔ اور ایک دن وہ اپنے معصوم بچو ں اور آپ کو روتا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو جائے ۔ ہماری خواتین کی اکثریت انہی کیفیات سے گزر رہی ہے۔
کیا ایک خاتون یا لڑکی کو اپنے آپ پر اتنا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی بہتر گزار سکے اور ساتھ میں اپنے خاندان اور ملک کی بہتری میں بھی حصہ ڈال سکے؟
فیصلہ آپ پر ہے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ Women Empowerment / تقویت کاریِ نسواں ہے کیا ؟ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے تو ایک ریسرچ پیپر میں اس کی جو تعریف ملی وہ کچھ ایسے تھی " خاندان، محلے اور معاشرے میں خواتین کی حالت بہتر بنانا، خواتین کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی آزادی دینا، خاندانی معاملات میں خواتین کو شریک کرنا اور انکی رائے کو اہمیت دینا، زندگی، غذائیت ، صحت، تعلیم، روز گار میں بیٹے اور بیٹیوں یا مرد و عورت میں تفریق نہ کرنا"
اقوام متحدہ کے مطابق women empowerment کے پانچ جز ہیں ۔
1- خواتین میں اپنی ذات کی اہمیت کا احساس
2- مختلف معاملات میں انتخاب کا حق
3- مواقع اور وسائل تک رسائی کا حق
4- گھر اور گھر سے باہر اپنی زندگی پر اپنا اختیار
5- مصنفانہ سماجی اور معاشی ترقی کے لئے اثر انداز ہونے کی قابلیت
تقویت کاری نسواں کا تصور صنفی مساوات سے جڑا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق "صنفی مساوات سے مراد مردو خواتین / بچوں اور بچیوں کے لیے مساوی حقوق، مساوی مواقع اور مساوی ذمہ داریاں ہیں۔" صنفی مساوات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ مرد و عورت مختلف ہیں لیکن دونوں انسان ہیں اور صرف اس بنا پر کہ ان میں سے ایک عورت ہے اسے اچھی غذا، تعلیم، اور دیگر حقوق / مواقع سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اب مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس سارے معاملے میں مرد کا تو کہیں ذکر ہی نہیں نہ ہی اس سے کہیں کسی مرد کی تضحیک ہوتی ہے نا ہی اس کی تعظیم میں کمی آتی ہے۔
اصل میں جب کوئی بھی خواتین کی خود مختاری [دراصل بہتری یا تقویت] کی بات کرتا ہے تو اس سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ خواتین کی خودمختاری کا مطلب مردوں سے مقابلہ ہے ، یا خواتین کی مادر پدر آزادی ہے کہ خواتین دندناتی پھریں اور جو چاہیں کریں ، ان سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ وہ کسی کو جوابدہ نہ ہوں۔ اور یہ تصور شاید این جی اوز، یا ہمارے ملک کی ایک مشہور وکیل ٹائپ کی خواتین کے حلیے اور رویئے کو دیکھ کر آیا ہے ۔ ایسی مادر پدر آزادی تو ایک متوازن گھرانے میں مردوں کو بھی نہیں دی جاتی ، تو خواتین کو کیسے مل سکتی ہے۔ اور یہ غلط فہمی نہ صرف حضرات کو ہے، خواتین کی ایک بڑی تعداد کا بھی اس اصطلاح کے بارے میں یہی تصور ہے ۔ خواتین کی بہتری یا خود مختاری مردوں سے مقابلہ نہیں ہے یا مردوں کو نیچا دکھانا نہیں ہے، خواتین کی بہتری کا مطلب زندگی کے مسائل اور مصائب میں مرد کا ساتھ دینا اور ہاتھ بٹانا ہے۔ خواتین کی بہتری کا مطلب ایک صحتمند اور تعلیم یافتہ معاشرہ کا قیام ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی بچیوں اور خواتین کی حالت کیوں بہتر بنائیں۔ کیوں کر انہیں اچھی غذا دیں، کیوں کر انہیں تعلیم دیں اور کیوں کر انہیں اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے یکساں مواقع دیں۔ وہ اپنی زندگی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں کیوں رکھیں۔
پاکستان میں ہر 100خواتین کے مقابلے میں 102 مرد ہیں مطلب پاکستان کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ خواتین میں خواندگی کا تناسب 47 فیصد ہے ۔ 50 فیصد بچیاں 19 سال کی عمر سے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں ۔ ان میں سے 70 فیصد بچیاں اگلے سال ہی ماں بن جاتی ہیں ۔ یعنی ان بچیوں کی اپنی نشوونما مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ ایک اور جسم کی پرورش شروع کر دیتی ہیں، جو ساری غذائیت اسی بچی کے جسم سے حاصل کرتا ہے ۔ یاد رہے کہ پاکستان میں دو تہا ئی آبادی خط غربت سے نیچے رہتی ہے مطلب 60 فیصد کے لگ بھگ افراد ایک دن میں جتنی غذائیت کی ضرورت ان کے جسم کو ہوتی ہے ان کی ایک دن کی آمدنی انہیں وہ غذائیت فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے ۔ اور یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جہاں آبادی کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے وہاں بچوں کو غذا ، تعلیم اور علاج کے لیے بچیوں پر فوقیت دی جاتی ہے ۔ بچیوں کے "گرم غذائیں" کھانے پر پابندی ہوتی ہے ۔ کہ وہ جلدی بڑی ہوجائیں گی تو ان کی شادی کی فکر کرنی ہوگی ۔ ایسے پس منظر میں جب ایک غذائیت کی کمی کا شکار بچی اپنے اندر ایک اور بچے کی پرورش کر رہی ہوگی تو اس کی خود کی صحت اور اس آنے والے بچے کی صحت کے معیار کا اندازہ خود ہی کر لیجئے ۔ اور اس ٹین ایج یا کم عمر ی کے حمل اور بچے کی پیدائش کی پیچیدگیاں اور نقصانات ایک علیحدہ موضوع ہیں۔
غذائیت کی کمی نہ صرف بچوں اور بچیوں کو متعدی امراض کے لیے آسان شکار بنا دیتی ہے اور وہ آئے دن بیمار رہتے ہیں بلکہ غذائیت کی کمی کا شکار بچے/بچیاں اسکول میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرے ان کے سیکھنے کی صلاحیت مختلف غذائی اجزاء اور نمکیات کی کمی سےمتاثر ہوتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو بھی غذا مہیا ہے اس میں سے بچی کو بھی برابر کی غذا کیوں نہ دی جائے صرف اس لیے کہ وہ بچی ہے۔ ایک صحت مند بچی نا صرف اپنے جائز حق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہے ، وہ اپنے خاندان کے لیے ایک بہتر مددگار ہاتھ بھی ہوسکتی ہے ۔ اسی بچی نے آگے جا کر ماں بننا ہے بیٹیوں کی بھی اور بیٹوں کی بھی ۔ اگر ماں صحت مند نہ ہوگی تو آپ صحتمند بیٹے اور ایک صحت مند قوم کیسے حاصل کر سکیں گے ۔ کیا ایک ملک غذائیت کی کمی کا شکار بیٹوں پر مشتمل ورک فورس سے اپنی معاشی ترقی کا ٹارگٹ پورا کر سکتا ہے ۔
تعلیمی میدان میں 70فیصد مردوں کے مقابلے میں 47 فیصد خو اتین خواندہ ہیں ان میں پی ایچ ڈی خواتین بھی شامل ہیں اور وہ بھی جو انگوٹھا لگانے کے بجائے اپنا نام لکھ پڑھ سکتی ہیں ۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی نہ صرف اپنی صحت کا زیادہ بہتر خیال رکھ سکتی ہے۔ بلکہ اپنے والدین ، بہن بھائیوں کی صحت کا بھی ۔ تعلیم یافتہ لڑکی اپنے بچوں کی بھی بہتر پرورش کر سکتی ہے۔ تربیت یافتہ لڑکی اپنے اور اپنے والدین یا خاندان کے لیے اضافی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ تعلیم شادی کی عمر میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے۔ جو خواتین اور بچوں کی صحت کے مسائل کے بہت سے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے ۔ تعلیم یافتہ خاتون اپنے بچوں کے بارے میں بہتر فیصلہ کرنے میں مشورہ دے سکتی ہے ۔ پاکستان کی 50 فیصد آبادی کو تعلیم سے محروم رکھ کر ہم 100 فیصد خواندگی کا خواب کبھی پورا نہیں کر سکتے۔
برسر روزگار خواتین ، چاہے وہ گھر بیٹھ کر کماتی ہوں یا گھر سے باہر جا کر، اپنے گھر کے لیے ایک مددگار ہاتھ ہیں۔ ان کی
اضافی آمدنی گھر میں ہی خرچ ہوتی ہے اور بچوں کی بہتری، خصوصاً صحت اور تعلیم پر خرچ کی جا سکتی ہے۔ پاکستان ہیلتھ اینڈ ڈیموگرافک سروے 13/2012 کے مطابق 15 سے 49 سال تک کی 28٫5 فیصد خواتین پچھلے ایک سال کے دوران زیر ملازمت تھیں ۔ ان میں سے پچاس فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی آمدنی خود خرچ کر سکتی ہیں ۔ یعنی ذاتی آمدنی رکھنے والی نصف خواتین کو اپنی آمدنی اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا اختیار نہیں ۔ تعلیم یافتہ خواتین نسبتاً زیادہ آزادی سے اپنی آمدنی اپنی مرضی سے خرچ کر سکتی ہیں، یا زیادہ عمر کی خواتین نسبتاً زیادہ آزاد تھیں اسی طرح شہری خواتین یا اونچی کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین کو اپنی آمدنی پر زیادہ کنٹرول حاصل تھا ۔
اس کے علاوہ ایک بر سر روزگار خاتون کسی مشکل وقت میں مثلاً کسی حادثے کی صورت میں فوری مدد دے سکتی ہے۔ جیسے ہسپتال لے جانا وغیرہ کیوں کہ وہ گھر سے باہر جانےاور باہر کی دنیا کا سامنا کرنے کی عادی ہوتی ہے ۔ایک صاحب آمدن خاتون اپنے خاندان کے فیصلوں میں حصہ لے سکتی ہے اور اس کی بات سنی اور مانی جا سکتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کے بچے زیادہ پر اعتماد اور خود پر انحصار کرنے والے ہوتے ہیں ۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ساری خواتین کو زبر دستی ملازمت پر بھیج دو، لیکن جو خواتین تعلیم یافتہ ہیں اور چاہتی ہیں کہ اپنی تعلیم کام میں لائیں یا اپنی آمدنی میں اضافہ کر یں انہیں یکساں مواقع حاصل ہوں ۔ یہ فیصلہ کے خاتون نے جاب کرنی ہے یا نہیں کرنی اسکا اپنا فیصلہ ہونا چاہیے ۔ یا جو خواتین غربت کا شکار ہیں اور انہیں کوئی تربیت دے کر یا کوئی ہنر سکھا کر ان کی غربت کو کم کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر غذا یا بہتر تعلیم دے سکیں انہیں اس کی آزادی ہو۔ بات پھر وہیں پر آجاتی ہے کہ کیا اپنی آدھی آبادی کو گھر میں بند کر کے ایک ملک سو فیصد معاشی اور سماجی ترقی کر سکتا ہے ۔
اگر ایک بچی/ خاتون صحت مند، تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم نہ ہوگی تو اپنے بارے میں کوئی فیصلہ خودلینے میں ہچکچاہٹ یا گریز کا شکار رہے گی ۔ اور گھریلو معاملات میں بولنے میں بھی مثلاً سروے کے مطابق صرف 11 فیصد خواتین اپنی صحت کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کی مجاز تھیں ۔ یعنی بیمار ہونے کی صورت میں علاج کیا جائے یا نہیں یا کہاں سے علاج کیا جائے اور کب اس کا فیصلہ کیا جائے کہ اب علاج کی ضرورت ہے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بہت سی خواتین کراچی میں بھی اگر بچہ کو بخار ہو گیا تو شام تک اس انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں کہ شوہر گھر آئے گا تو پیسے دے گا یا بچے کو علاج کی غرض سے کہیں لے کر جائے گا۔ کیا ایک خاتون کو اتنا اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے علاج یا اپنے بچے کے علاج کے لیے خود قدم اٹھا سکے ۔ پھر اگر ہرسال ہمارے ہر 1000 زندہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 74 بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے اور 89بچے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے مر جاتے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے ۔
سروے کے مطابق صرف 9 فیصد خواتین اپنی فیملی یا رشتہ داروں کے گھر جانے کے بارے میں اکیلے فیصلہ کر سکتی ہیں ۔ 40 فیصد خواتین کو کسی بھی قسم کے فیصلے میں شامل نہیں کیا جاتا ۔ 75 فیصد گھرانوں میں صرف مرد کو ہی تمام فیصلے کرنے کا اختیار ہے ۔ اس کی مرضی ہے کہ وہ عورت سے مشورہ کرے یا نہ کرے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی بچیوں کو اچھی غذا ، تعلیم، اور شعور دینے کے حق میں ہیں یا نہیں۔ جب women empowerment کی اصطلا ح استعمال کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ہمارا دھیان خصوصاً مردوں کا اپنی موجودہ یا ہونے والی بیگمات کی طرف جاتا ہے، کہ اس کے نتیجے میں ان کے مقابلے میں آکھڑی ہوں گی، اور ان پر حاوی ہو جائیں گی۔ ان پر اپنے فیصلے ٹھونسیں گی۔ لیکن صرف بیگمات ہی خواتین نہیں ہیں، آپ کی بہنیں اور بیٹیاں بھی خواتین ہیں ۔ اور انہیں بھی ایک اچھی اور بہتر زندگی گزارنے کا حق ہے ۔
اپنی بہن یا بیٹی کے بارے میں سوچیں کہ اسکی صحت کمزور ہو، اسے علاج کی ضرورت ہو اور اس کے سسرال والے یا شوہر اس کے علاج پر توجہ نہ دیتے ہوں ، وہ دن بہ دن موت کی جانب بڑھ رہی ہو، اور تعلیم کم یا نہ ہونے کے باعث شوہر سے علاج کے بارے میں بات کرنے کی ہمت نہ رکھتی ہو یا پے درپے بچوں کی پیدائش سے اس کی صحت تباہ ہورہی ہو اور وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر بچوں کی پیدائش میں وقفہ نہ کرسکتی ہو، یا اس بارے میں شوہر سے بات نہ کرسکتی ہو۔ اور ایک دن وہ اپنے معصوم بچو ں اور آپ کو روتا چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو جائے ۔ ہماری خواتین کی اکثریت انہی کیفیات سے گزر رہی ہے۔
کیا ایک خاتون یا لڑکی کو اپنے آپ پر اتنا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی بہتر گزار سکے اور ساتھ میں اپنے خاندان اور ملک کی بہتری میں بھی حصہ ڈال سکے؟
فیصلہ آپ پر ہے ۔
پی ایس : اس پورے مضمون میں بیان کیے گئے حقائق اور دلائل سے مردوں کا کیا بگڑا ؟