Friday, November 28, 2014

"کم از کم" ایمان والی قوم

حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ جب تم کوئی برائی دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو، ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے روکو/برا کہو اور اگر زبان سے بھی نہ کہہ سکو تو دل میں برا جانو، اور یہ سب سے کمزور ایمان کی نشانی ہے۔ یعنی یہ" کم از کم" یہ تو کرو کہ اس سے کراہت کرو تاکہ تم اسے اس برائی میں خود نہ مبتلا ہوجاو یا اس کے عادی نہ ہوجاو اور کم از کم اس کو برا تو سمجھتے رہو۔
ہم نے اس" کم از کم" کو پلو سے باندھ لیا ہے اور ہر معاملے میں بس کم از کم پر تکیہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں ۔ یعنی :


جیسے کہ پانچ وقت نماز کا حکم ہے تو اس کو ہم نے کچھ اس طرح لیا ہے کہ کچھ لوگ جمعہ کے جمعہ نماز پڑھ لیتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ کم از کم ہم بے نمازی نہیں ہیں۔ ان کے بعد والے کم از کم عید کے عید نماز پڑھ لیتے ہیں اور اپنی مسلمانیت کو تقویت بخش لیتے ہیں۔ ان سے بھی دو چار ہاتھ والے بس اذان کی آواز سن کر ٹی وی کی آواز کم کر دیتے ہیں اور سر پر دوپٹہ اوڑھ لیتے ہیں سوری اوڑھ لیتی ہیں اور سمجھ لیتی ہیں کہ ان کی ذمہ داری پوری ہوئی اب وہ بالکل ہی کافر تو نہیں ہیں ناں۔

پردہ کرنے کا حکم ہے ، پورا پردہ نہ سہی کم از کم اسکارف تو پہن ہی لیتے ہیں۔ بالکل ہی بے پردہ تو نہیں پھرتے نا۔ روزہ رکھنے کا حکم ہے تو زبر دستی مار دھاڑ کر کر کے ساری کھانے پینے کی دکانیں بند کروا دو تاکہ کسی مسافر یا پردیسی کو بھی کہیں کچھ کھانے کو نہ ملے۔ خواہ پوری آبادی میں 5 فیصد افراد بھی روزہ نہ رکھتے ہوں، لیکن کم از کم ہم نے روزے کا احترام تو کیا ہے نا

کوئی بڑے سے بڑا حادثہ یا سانحہ ہوجائے ، ہم عوام اس پر دکھی ہو کر اور آپس میں ڈسکس کر کے شاد ہو جاتے ہیں کہ ہم کتنے حساس ہیں، تھوڑے اور حساس ہوں تو فیس بک پر ایک اسٹیٹس ڈال دیتے ہیں اور اس پر دو چار دن فاتحہ خوانی کر تے رہتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ کم از کم ہم بالکل ہی بے حس نہیں ہیں۔ جیسی روح ویسے فرشتے، حکومت بھی یہی کرتی ہے، ایک پوسٹ فیکٹو مذمتی بیان جاری کرتی ہے ، متاثرین کو دوچار ہزار روپے دیتی ہے اور سمجھ لیتی ہے کہ کم از کم وہ اپنی ذمہ داریوں سے بے خبر نہیں ہے۔

اسی "کم از کم" پالیسی نے ہمیں بطور معاشرہ ایک منافق معاشرہ بنا دیا ہے ۔ جہاں بس فیس ویلیو یا پیش منظر کو ہی ہم نے اپنا اصل مقصد بنا لیا ہے کہ کوئی بھی عمل یا چیز دیکھنے میں قبول عام ہونی چاہیے، اصلیت چاہے کچھ بھی ہو ۔

مزے دار بات یہ ہے کہ جہاں کوئی عمل کرنے کا مقام آتا ہے ہم میں سے ہر ایک کم از کم والی پالیسی پر یقین رکھتا ہے، لیکن جب دوسرے اسی کم از کم پالیسی پر عمل کریں تو ان سے پورے پر عمل کرنے کی توقع کی جاتی ہے، یعنی میں صرف ایک اسکارف پہن کر دوسروں کو با آسانی یہ تلقین کر سکتی ہوں کہ اسلام میں پورے داخل ہونے کا حکم ہے، اسلام میں جزوی داخلہ نہیں ملتا۔

ایسا نہیں ہے کہ اس حدیث کے پہلے اور دوسرے سبق کو ہم بھول گئے ہیں ، پہلا حصہ یعنی برائی کو ہاتھ سے روکنے والا ہماری مذہبی تحریکوں نے اپنایا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں بھونچال آیا ہوا ہے، کیوں کہ وہ تحریکیں ایک دوسری حدیث بھول گئی ہیں کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

دوسرے حصے -- برائی کو زبان سے برا کہو-- پر ہمارے سیاستدان عمل کر رہے ہیں کیوں کہ انہیں ایک دوسرے میں بس برائیاں ہی نظر آتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو جی بھر کے برا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ وہ بھی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی حدیث بھولے ہوئے ہیں کہ گناہ گار کو پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو۔

پی ایس: اس مضمون کا مقصد کسی حدیث کا مذاق اڑانا نہیں بلکہ یہ تجزیہ ہے کہ کس طرح ہم ان اہم اسباق کا مذاق بنا رہے ہیں۔