Showing posts with label Society. Show all posts
Showing posts with label Society. Show all posts

Tuesday, February 14, 2017

سیون ائیرز ان تبت

ایک لو اسٹوری

سب سے پہلے تو اس کا سفر ہی کراچی سے اسٹارٹ ہوا ۔ ہمارا اپنا کراچی ، ہاں جی اور ہمارا اپنا نانگا پربت بھی ۔ بندے کی آنکھیں اور دل کھل نہ جائے تو اور کیا ہو بھلا ۔ چار کوہ نورد جو نانگا پربت کا دیا میر فیس اور ٹریک دریافت کرنے کی مہم سے فارغ ہوکر اپنے وطن واپس جانے کے لیے کراچی میں بحری جہاز کے انتظار میں تھےدوسری جنگ عظیم شروع ہونے پر سرکار انگلیشہ کے جنگی قیدی بنا لیے گئے کیونکہ انکا تعلق جرمنی سے تھا۔ اور جیل بھیج دئیے گئے جو تقریباً تبت کے بارڈر پر ہی سمجھیں ۔ اب بندہ اور وہ بھی کو ہ نورد,  انگریز کی جیل سے فرار ہوگا تو بھاگ کے اور کہاں جائے گا, تبت اور کہاں ۔ سو یہی ہوا۔

تبت اب تک ہمارے لیے بس اتنا ہی تھا کہ دنیا کا بلند ترین پلیٹو یعنی کہ سطح مرتفع ہے ، چین کا حصہ ہے، جو ذرا چین سے ناراض سا ہے اوروہاں کے حکمران ہندوستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔

Wednesday, November 30, 2016

عزت و بے عزتی کے معیارات

صابن کا اشتہار:

ایک نوجوان خاتون، کاندھے سے نیچے ڈھلکتے ہوئے لباس میں ایک نوجوان مرد کو Seduce کر رہی ہیں اور مشتہر یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر آپ لکس سے غسل فرمائیں گی تو آپ کا شوہر یا بوائے فرینڈ آپ کے جسمانی قرب کے لیے پاگل ہوجائے گا۔ 

دوسرے اشتہار میں ایک اور خاتون اپنے برہنہ شانوں پر صابن کا پردہ ڈالے شاور میں کھڑی پتا نہیں خواتین کو یا حضرات کو مطلوبہ صابن سے غسل پر آمادہ کر رہی ہیں۔

ملک و قوم و نظریہ پاکستان کے ذمہ داران سورہے ہیں۔

Friday, March 18, 2016

بچے ہمارے عہد کے

ہم اپنے بچپن کو یاد کریں تو ہم نے اورنگی ٹاون میں ہی ہوش سنبھالا تھا۔ اس زمانے میں اورنگی ٹاون خاصا کھلا ڈلا ہوتا تھا اور ویرانے میں ایک دو جھونپڑی نما گھر ہوتے تھے جہاں سے حبیب بنک ٹاور براہ راست مشاہدہ کیا جاسکتا تھا، اور اگر نانا نانی یا کوئی بھی مہمان ہمارے گھر آتا تھا تو وہ ایک کلومیٹر دور بس اسٹاپ پر بس سے اترتے ہی نظر آنے لگتا تھا ۔ 

ہمارا محلہ ایک بہت بڑے آنگن پر مشتمل تھا جس میں ذرا فاصلوں سے دو چار جھونپڑیاں [ممی ڈیڈی بچوں کے لیے چٹائی کی بنی ہوئی ہٹس] ہوتی تھیں ۔۔ ایک ہماری، ایک ہمارے سامنے حسینہ باجی جو بلوچ تھیں مطلب ابھی بھی ہیں اللہ انہیں صحت و حیاتی دے، ایک برابر میں سلمی باجی اور صابر بھائی کی، ان کے سامنے خانصاحب کی جو بنگلہ دیش سے ہجرت کئے ہوئے پٹھان تھے۔ ہمارے پیچھے ایک جھگی حنیفہ باجی کی ، وہ بھی بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آئی ہوئی بہاری فیملی تھی۔