Wednesday, October 2, 2013

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے۔ تصویر کا دوسرا رخ

میں کبھی کبھار شام کے اوقات میں اپنی بھتیجی کو ایک پارک میں لے جاتی ہوں۔ وہاں 14، 15، 16 سال کی بچیاں ٹیوشن سینٹرز یا کوچنگ سے واپسی پر کتابیں بغل میں دبائے چور نظروں سے ادھر ادھر تکتی ہوئی کسی کونے والی بنچ کا انتخاب کرتی ہیں جہاں پہلے ہی کوئی بانکا چھبیلا انکا انتظار کر رہا ہوتا ہے یا وہ موبائل پر اطلاع ملتے ہی آجاتا ہے۔ موبائل فون نے ان بچیوں کو چور راستے تو دکھا دیے ہیں لیکن دنیا میں کس کس قسم کے دھوکے ہیں اس سے ناواقف یہ قطعی غیر معصوم بچیاں کچھ شرماتی لجاتی اپنے بوائے فرینڈ سے چپک کر بیٹھی نئے نئے افئیر کے نشے میں جھوم رہی ہوتی ہیں۔

پھر جب کسی 14/15 سال کی بچی کی روندی ہوئی لاش کسی گلی کوچے یا ساحلِ سمندر سے برآمد ہوتی ہے، تو انکا وہی گھاگ بوائے فرینڈ گرفتاری کے بعد کہتا ہے کہ ہماری تو کئی سال سے دوستی تھی اور ہم پہلے بھی تنہائی میں ملتے رہے ہیں۔ والدین لاکھ دہائی دیں انکی بچی "معصوم تھی" پارکوں کا شام کا منظر گواہی دیتا ہے، کہ "بچی" ہرگز معصوم نہیں تھی۔ وہ تو شاید "بچی" بھی نہیں تھی۔ 

کیا برا ہے اگر بیٹیوں کے پیدا ہونے پر بین ڈالے جاتے ہیں؟ کیا برا تھا کہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ کہ ایک دن ان کی وجہ سے والدین کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے ، پہلا رخ 

کیوں نہ بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم پھر سے زندہ کی جائے۔

میری ایک پھول سی بھتیجی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اسے یہ کیسے سمجھاوں کہ بیٹا آپ نے اپنے کسی چچا یا ماموں یا انکل یا آنٹی کے ساتھ کہیں اکیلے نہیں جانا۔ اس کے سوال اتنے ہوتے ہیں، ختم ہی نہیں ہوتے، میں اسے ریپ کیا ہوتا ہے، جنسی زیادتی کیا ہوتی ہے، قتل کیا ہوتا ہے، نہیں سمجھا سکتی۔ ایک تو اسکی عمر میں اسے یہ سارے تصورات سمجھ نہیں آسکتے۔ اور جس دن سمجھ آگئے، اس دن کے بعد سے کیا وہ اس دنیا میں کسی پر بھی اعتبار کر سکے گی، نہیں نا۔ تو پھر اسکی شخصیت میں ہمیشہ کمی رہے گی، وہ ہمیشہ ایک خوف میں مبتلا رہے گی، کبھی کھل کر ہنس بول نہ سکے گی، کبھی آزادانہ نقل و حرکت نہ کرسکے گی، ایک عمر قید میں زندگی بسر کرے گی۔کبھی ایک صحتمند زندگی بسر نہیں کر سکے گی۔ 

کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس کی زندگی تباہ ہونے سے پہلے، اسکا پھول سا جسم نوچے بغیر ہم اسے عزت و احترام سے زندہ دفن کردیں۔
-----------------------

اعتماد اور اعتبار

"منی پھو یہ فون نہیں لینا۔"

"اچھا بیٹے نہیں لوں گی۔"

پھر کسی کام سے اپنا فون اٹھا لیا جس میں فاطمہ گانے سن رہی تھی۔ اب کتنا ہی آپ دلیلیں دے لو کہ کیوں اٹھایا تھا، اس کا اعتبار واپس نہیں آنے والا، کسی بات پر دوبارہ یقین نہیں کرنا۔ اعتماد ایسے ہی ختم ہوتا ہے، اعتبار ایسے ہی ٹوٹتاہے۔

بڑوں کا اعتماد بھی ایسے ہی ٹوٹتا ہے، وہ بھی کبھی دوبارہ اعتبار نہیں کرتے، لیکن وہ منافقت کرتے ہیں، کبھی آپ کے منہ پر نہیں کہتے کہ آپ قابل اعتبار نہیں رہے۔

Saturday, September 28, 2013

واردات

ونس اپون اے ٹائم ہمارا دل ایک بندے پر آگیا تھا۔ ہم ٹھہرے سیدھے سادھے بندے، ہم نے زیادہ پریشانی سے بچنے کے لئے سیدھے سیدھے سارا معاملہ ان صاحب سے گوش گذار کر دیا۔ وہ بے چارے حیران ہوگئے۔ انھیں ہم سے ایسی امید ہر گز نہیں تھی۔ ہمیں کب خود سے ایسی کوئی امید تھی، ہم ان سے کم حیران نہیں تھے۔ وہ صاحب پہلے حیران ہوئے پھر شوخے ہو گئے اور اپنا فرمائشی پروگرام نشر کرنا شروع کردیا۔

انکی پہلی فرمائش یہ تھی کہ ہم ان کے ساتھ باہر کھانا کھائیں۔ ہائیں ، ، ، یعنی اگر ہمارا دل اپنی جگہ پر نہیں تھا تو انکا دماغ بھی کھسک گیا تھا۔ ہم نے کہا کہ محترم یہ ڈیٹ ویٹ کی توقع تو تم ہم سے رکھنا بھی مت، ہمارا دل تم پہ آگیا ہے، برے توہم بھی تم کو نہیں لگتے، چلو شادی کرلیتے ہیں، پھر جو تم کہو۔

اس پر وہ مزید پھیلنے لگے، ایسی ایسی فرمائشیں جن کی ہمیں ان سے ہرگز توقع نہیں تھی۔ لیکن ہمارا دل بے ایمان ہوا تھا، ہم تو اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم تھے۔ہم نے کوئی بھی فرمائش پوری کرنے سے صاف انکار کردیا۔

لو صاحب وہ تو انتقامی کاروائیوں پر اتر آئے۔ انہوں نے ہمارا فون اٹینڈ کرنا بند کردیا۔ ہمارے میسجز کا جواب دینا بند کردیا، ہمیں اپنی فیس بک، میسنجر اور نہ جانے کہاں کہاں سے نہ صرف بے دخل کردیا بلکہ بلاک بھی کردیا۔

آہ ہمارے درد و الم و رنج و صدمے کا عالم نہ پوچھیں، ہمیں انکے ساتھ مغز ماری کرنے کا جو نشہ تھا اسکے آفٹر ایفیکٹس بہت ہی خوفناک تھے۔ یقین مانیں دنیا میں جو سب سے خطرناک نشہ ہے وہ انسان کی صحبت کا نشہ ہے۔ ان سے رابطہ کٹ جانے پر ہمیں لگتا تھا کہ ہم فوت ہی ہوجائیں گے۔ سال بھر تو ہمیں نیند ہی نہیں آتی تھی اور آجائے تو اتنے خوفناک خواب آتے تھے کہ اس سے بہتر تھا کہ بندہ سوئے ہی نا۔ لیکن "وہ ہی نظر آتا ہے جب کوئی نظر نہیں آتا" کے مصداق اللہ میاں نے ہم کو مصر بھیج دیا۔ مصر میں بھی ہم اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے سیر و تفریح کرنے پاکستان چلے آتے تھے۔

اس وقت تو بس لگتا تھا کہ ہر سانس آخری سانس ہے، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہم نا صرف زندہ ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ خوش وخرم ہیں۔ وہ بھی یقیناً خوش ہونگے اپنے خرچے پر ]اب ہم انکی جاسوسی نہیں کرتے]۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں کوئی شریف آدمی بہت خوش ہے، کیونکہ ہم نے اب تک شادی نہیں کی۔ تو یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے انکار کر کے اپنے اور ہمارے دونوں کے حق میں بھلائی کی۔ اور آپ کے بھی، ورنہ آپ کو ایک اتنی اچھی رائٹر سے محروم ہونا پڑتا۔

اب اگر کبھی ہمارا کوئی دوست ہمیں اپنی فیس بک پر بین کرتا ہے،یا ہمارے کومنٹ ڈیلیٹ کرتا ہے یا ہمیں ڈیلیٹ ہی کردیتا ہے اپنی فرینڈز لسٹ سے تو ہم "سانو ں کی" کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ہم انکے بغیر زندہ ہیں تو یقین رکھیے آپ کے بغیر بھی ہماری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

Saturday, September 21, 2013

Qura'an: What is inside

آجکل میں مولانا مودودی کا اردو ترجمہ٫ قران بطور ایک کتاب پڑھ رہی ہوں۔ زیر نظر تبصرہ محض ایک ایسا ہی تبصرہ ہے جیسے ایک کتاب کو پڑھ کر اسکے بارے میں تبصرہ کیا جاتا ہے۔

قران مجید کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی اس تمام جہان کا خالق ہے، وہی مقتدر ہےوہی تمام عبادتوں کا حقدار ہے۔ لہذہ صرف اور صرف اسکی بات سنی، مانی اور عمل کی جائے۔ اسکے بتائے ہوئے رستے پر چلا جائے، جو اسکے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا، کامیاب ہوگا، جو بغاوت کرے گا سزا کا مستحق ہوگا۔ ہر گناہ قابل معافی ہے، سوائے شرک کے۔

ترقی پسندی

ترقی پسندی بھی ایک طرح کی انتہا پسندی ہی ہے اگر اس میں دوسروں کی رائے کا احترام نہ ہو، ایک طرف لوگ مّلا کی شامت لے آتے ہیں کہ وہ اسلام کی غلط تشریح کرتا ہے، اسکی سوچ محدود ہے، دوسری جانب ملا کہتا ہے، خبر دار میں اسلام کا ٹھیکدار ہوں مجھے تم سے زیادہ اسلام پتہ ہے، خبردار مجھ سے پوچھے بغیر ایک لفظ کا مطلب بھی خود سے سمجھنے کی کوشش کی، تیسری جانب اگر کوئی خود سے بڑھ کر نیک نیتی سے یہ جاننا چاہے کہ آخر مذہب ہے کیا، کتاب میں کیا لکھا ہے، تو ترقی پسند انتہا پسند اتنی شدت سے اسکا مضحکہ اڑاتے ہیں کہ وہ دل برداشتہ ہو کر پیچھے ہٹ جائے،۔

سوال یہ ہے کہ یہ ترقی پسند انتہا پسندی جان بوجھ کر ملا کی پوزیشن مضبوط کر رہی ہے، یا نا سمجھی میں؟

یہ نہ تھی ہماری قسمت

اس بار عید پر شوق چڑھا کہ عید کارڈ عید کارڈ کھیلا جائے اور بچپن کی یادوں کو تازہ کیا جائے، پورا پاپوش کا بازارکھنگال ڈالا، عید کارڈ ندارد۔ گھر کے قریب ایک اردو بازار ہے، وہاں ایک دکان پر دکھی پریم نگری، ناکام عاشقوں والے عید کارڈ دستیاب تھے، سوچا لے لوں مگر پھر خیال آیا کہ پہلے جس کو بھیجا جائے اسکا بندو بست کیا جائے، یعنی پہلے ایک مستقل سرکا درد تلاش کیا جائے پھر اسکو دکھی پریم نگری والا عید کارڈ بھیجا جائے، عید کارڈ تو سستا نسخہ ہے، لیکن جو اسکا پری ریکویزیٹ وہ بڑا مہنگا پڑے گا۔

لہذہ پروگرام کینسل