ترقی ناقابل گریز ہے۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ۔ لیکن ہمارے آپکے ارد گرد ہر شخص نے نہیں تو اکثریت نے پچھلے ساٹھ پینسٹھ سالوں میں لازمی ترقی کی ہے، جو پیدل تھے وہ سائیکل پہ آگئے ہیں، سائیکل والا موٹر سائیکل، موٹر سائیکل والا کار میں اور کار والا اب بڑی اور مہنگی سے مہنگی کار مین سفر کرتا ہے۔ کوئی بھی آج اس گھر میں نہیں رہتا جس میں آج سے پچاس یا ساٹھ سال قبل رہتا تھا۔ اگر پلاٹ وہی ہے تو مکان ضرور تبدیل ہوا ہے۔ اور پہلے سے بہتر ہوگیا ہے۔ پہلے اگر ایک باپ کمانے والا تھا تو اب اس کے ساتھ اسکے بیٹے یا بیٹی بھی ہاتھ بٹانے میں شامل ہیں ۔ جہاں وسائل بڑھتے ہیں وہاں لائف اسٹائل بھی تبدیل ہوتا ہے، اور سب سے بڑی تبدیلی رہن سہن کے طور طریقوں میں آتی ہے۔ طور طریقوں میں تبدیلی خوشگوار تو ہوتی ہے لیکن بندے کو خوار بھی کردیتی ہے۔ اور جنم لیتی ہے
Poverty of Culture
ویسے تو یہ ہمارے حالات حاضرہ و غیر حاضرہ ہیں، پر کسی اور کو اس میں اپنا ماضی و حال نظر آئے تو "ادارہ " ہرگز قصور وار نہ ہوگا۔
پرانے چھوٹے سے گھر سے نئے ، بڑے اور ویل فرنشڈ گھر کے سفر تک پرانی عادتیں بڑی مشکل سے چھوٹتی ہیں ۔ کچے مکان میں تو جہاں چاہا پچکاری مار دی، جہاں چاہا کلی کر لی، پان پیک ڈالا، ہاتھ دھو لیے۔ گریس کے ہاتھ دیوار سے پونچھ دئیے، ناک صاف کر لی۔ چھوٹے بچوں کو شوشو پوٹی بھی صحن کے کسی کونے میں کروادی ، مٹی میں مٹی ہوجانی دو چار دن اِچ۔ بسکٹ یا چپس کھائے ، تھیلی ادھر ادھر کردی ۔
لیکن نئے گھر میں قباحت یہ ہوئی کہ سارا گھر چم چم چمک رہا ہو تو بندہ کُلّی کہاں مارے، ہاتھ کہاں دھوئے ، بڑی مشکل سے عادتیں تبدیل ہوتی ہیں۔ اور اگر کسی بچے نے فرش پر شو شو کردیا تو بس سمجھو ایک مصیبت آگئی ، گھر میں چھوٹے بچے ہوں تو بس بندہ پوچا ہاتھ میں لیے ایک ٹانگ پر ہی کھڑا رہے۔ کچے صحن میں دو وقت جھاڑو لگا لی ، کافی ہے، صحن تو تھا ہی مٹی کا ، پتے وغیرہ تو کچرے میں گنے بھی نہیں جاتے تھے، پر اب تو مٹی کا ایک ذرہ بھی فرش پر ہو تو نظر آتا ہے۔ اور عادتیں وہی ایک ہی چپل لیے پورے گھر میں شڑپ شڑپ کرتے پھر رہے ہیں۔ ہر ریپر لازمی ڈسٹ بن تک پہنچا کر آو ۔ دہری مشقت۔ پھر آپ کو تو عادت پڑ ہی جاتی ہے، رشتہ داروں اور انکے بچوں کو کون سمجھائے۔
پر کچے گھر میں جو پانی کا پائپ ہاتھ میں لے کر کمرے کا فرش بمعہ کھڑکی دروازے دھونے کا مزا تھا وہ پکے گھر میں کہاں ۔ساتھ میں چارپائیوں اور صحن میں پڑے تخت کو بھی نہلادیتے تھے۔ ا ب تو ایک تو پانی ہی اتنا کم آتا ہے کہ استعمال کو بمشکل پورا ہوتا ہے اوپر سے گھر ایسا ہے کہ اگر اتنا پانی بہایا تو خود ہی پھسل کر اسپتال جا پہنچیں گے ہڈیا ں تڑوا کر
کچے گھر میں یعنی پچھلے زمانوں میں گھر کے ہرفرد کے پاس ایک ایک جوڑی جوتا ہوتا تھا جو بچے ، ابا اور اماں بالترتیب اسکول، دفتر اور کہیں کسی کے گھر جاتے ہوئے پہنتے تھے اور ہر ایک کے پاس ایک عدد ہوائی چپل ہوتی تھی جو سارے گھر بشمول اکلوتے واش روم میں بھی استعمال کی جاتی تھی[ کہیں کہیں واش روم میں ایک الگ چپل مخصوص کرلی جاتی ہے لیکن لازمی نہیں ]۔ خیر اسی اکلوتی ہوائی چپل سے سارے صحن میں اور سردیوں میں کمروں اور باورچی خانے میں بھی سپڑ سپڑ کرتے پھرتے۔ گھر کےکسی ایک کونے کو نماز کے لیے مخصوص کرلیا جاتا ،جہاں چپلوں اور جوتوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔
اب نئے فرنشڈ گھر میں ایک سینڈل گھر سے باہر جانے کے لئے، ایک گھر کے اندر پہننے کے لیے اور ایک الگ چپل ہر ہر باتھ روم کے لیے مخصوص ہوتی ہیں ۔ چپل تو الگ الگ کر لی جاتی ہیں پر یاد کس کو رہتا ہے کہ واش روم سے واپس آتے ہوئے چپل وہیں چھوڑ کر آنا ہے، پہلے کبھی کب ایسا وقوعہ ہوا تھا بھلا۔ نئی نسل کو تو پھر بھی عادت پڑ جاتی ہے پر ابا جی کو جب دیکھو واش روم کی چپلوں میں گھر بھر میں گھوم رہے ہیں۔ انہیں بار بار یاد دہانی کروانی پڑتی ہے۔ کبھی بھائی باہر والے مٹی بھرے سینڈل پہنے کمروں تک پہنچے ہوئے ہیں ۔ ہن کی کرئیے۔
جو لوگ ہماری طرح کچے گھر میں ننگے پاوں پھرنے کے عادی ہوتے ہیں ان کے تو نئے گھر میں مزے ہوتے ہیں لیکن جن کے پاوں مٹی سے گندے ہوجاتے تھے اب چپلوں کے ہیر پھیر میں ہی الجھے رہتے ہیں۔
ونس اپان اے ٹائم غریب آدمی تو سال میں ایک بار عید کے عید ہی بازار جاتا تھا ، دو جوڑے عید پر بناتا تھا اور وہی کپڑے سینت سینت کر سارا سال بلکہ سالہا سال چلاتا تھا ۔ جب اسکا اپنا قد ان کپڑوں سے باہر ہوجاتا تھا تو وہی کپڑے چھوٹے بہن بھائیوں اور چچا زاد ، ماموں زاد اور خالہ زاد کو بالترتیب قد بخش دئیے جاتے تھے ، بعض اوقات تو وہی کپڑے گھوم گھام کر مزید چھوٹے بہن بھائیوں کے پاس واپس بھی آجایا کرتے تھے۔ہاں جی، پہلے اتنے ہی بہن بھائی ہوا کرتے تھے ناں
اب کم غریب آدمی یا خوشحال آدمی بازار تو عید کے علاوہ بھی چلا جاتا ہے لیکن کپڑوں کو سینت سینت کر رکھنے کی عادت ختم نہیں ہوتی اور اب تو سارے بہن بھائیوں اور کزنز کے [ جی اب چچا زاد و ماموں و خالا زاد کزن ہوجاتے ہیں ۔۔ تبدیلی] قد بھی یکساں ہوچکے ہوتے ہیں تو کپڑوں کا انبار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پسند متنوع المزاج ہوچکی ہوتی ہے اور نویں نکور کپڑے ماسیوں کو بخش دیے جاتے ہیں۔ پر ہمارے جیسے تو اب بھی آٹھ سے دس سال پرانے کپڑے مزے سے پہن لیتے ہیں اور اگر موٹاپے کی وجہ سے کسی کو کوئی لباس بخشنا پڑ جائے تو موت پڑ جاتی ہے۔ کیونکہ غریب آدمی حالات بدل جانے کے بعد کبھی نارمل نہیں رہ سکتا ، لازمی وہ یا تو کنجوس ہوگا یا پھرفیاض اور فضول خرچ ہوگا ،اگر اپنےعمل میں نہیں تو خیالات میں ۔
غریب بندہ تو عام بازاروں سے خریداری کرتا تھا ، وہی دو چار روپے والے ہار بندوں سے خوش ہوجاتاتھا ، جو انگوٹھی انگلی میں فٹ آجاتی تھی، خرید لی جاتی تھی، جو نہیں فٹ آتی تھی اسے کٹر پلاس کے کاٹ کر ایڈجسٹ ایبل کر لیا جاتا تھا۔ قاہرہ جاکر زندگی میں پہلی بار پتا لگا کہ انگوٹھیوں کے بھی نمبر ہوتے ہیں اس سے پہلے تو صرف جوتوں کے نمبر ہوتے تھے یا پھر ان اشیاء کے جن کا نام لینا ممنوع تھا سو دکاندار نے انکا نام ہی خاموشی رکھ دیا تھا، جب ضرورت ہوتی دکاندار سے کہتے کہ ہمیں خاموشی چاہیے، وہ نمبر پوچھ کر خاموشی سے خاموشی کاغذ میں لپیٹ کر دے دیتا ۔۔خیر یہ تو ایک جملہ متعرضہ تھا جو خاموشی سے درمیان میں آگیا۔ اب پتا چلا کہ جی جو انگوٹھی پسند ہو اپنے ناپ کا نمبر بتائیے اور خرید لیجیے۔
زمانہءِ عسرت میں وسائل کی کمی کے باعث ہم عصر دوستوں اور رشتہ داروں سے بلا ضرورت اور با ضرورت تحائف کے لین دین کا کوئی سلسلہ نہیں ہوتا تھا ۔سالگرہوں وغیرہ کی عیاشی تو افورڈ ہی نہیں کی جاسکتی ۔ عید بقر عید بھی ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی ، سو تحائف کے لین دین کی عادت ہی نہیں پڑتی ، بعد از تبدیلی حالات حلقہ احباب بڑا ہوجانے پر دوستوں اور آفس کولیگز تک تو پھر بھی فارمیلٹی پوری کرنے کو عید ، نیو ائیر یا برتھ ڈے پر تحائف کا لین دین ہو جاتا ہے پر قریبی عزیزوں اور اپنے بہن بھائیوں کے لیے تحائف کا خیال تک نہیں آتا ۔گھر کی مرغی جو ٹھہرے۔
ابھی حال ہی میں ہمیں خیال آیا کہ ہم خاندان کے اکلوتے پڑھے لکھے ترین فرد ہیں۔ ہمارے خالہ ،ماموں کے پوتا پوتی بھی خیر سے اسکول جاتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی ہمارا فرض ہے ۔ جو رنگ برنگی کتابیں ہم فاطمہ کے لیے خریدتے ہیں، وہی ان بچوں کے لیے بھی لے جاتے ہیں ۔۔ سچ پوچھیں تو وہ کتابیں ہمیں ان بچوں کو دینا اور ان کو وصول کرنا، دونوں طرف ایک جیسی آکورڈ نیس تھی، نہ ہمیں تحفہ دینے کی عادت نہ انہیں لینے کی ۔۔ دونوں اپنی اپنی جگہ پر شرمندہ شرمندہ سے
ان زمانوں میں بس کا کرایہ ہی افورڈ کیا جاسکتا تھا اور جہاں پیدل مارچ کیا جاسکتاتھا وہاں بس کا سفر بھی عیاشی سمجھا جاتا تھا ۔یا پھر اپنی سواری یعنی ابا کی موٹر سائیکل یا رکشہ ذریعہ سفر ہوتا تھا۔ کبھی پرائیویٹ رکشہ یا ٹیکسی کا تو تصور ہی محال تھا ۔ وہی "عیاشیاں" اب تک "خراب" کئے ہوئے ہیں۔ رکشہ یا ٹیکسی کا کرایہ ہمیشہ آسمان تک پہنچا دکھائی دیتا ہے۔ اپنی آمدنی نظر نہیں آتی کہ کہاں تک پہنچی ۔ اگر بدقت تمام سفر کرنا پڑ بھی جائے تو اپنی گاڑی کی سی این جی کے خرچ سے کرائے کا موازنہ کئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اور اس عمل کے بعد توبہ توبہ نہ کرنا کفر ہوتا ہے۔
غربت کا سب سے برا اثر بندے کی حس لطافت پر پڑتا ہے، جس نے خود گھر کی صفائی اور جھاڑو پوچا کیا ہو اور خود اپنے کپڑے سئیے ہوں اسے کبھی ماسی کے ہاتھ کی صفائی اور درزی یا درزن کے ہاتھ کی فٹنگ پسند نہیں آسکتی۔اول تو ماسی رکھیں گے ہی نہیں اور اگر رکھ لیں تو ماسی کے ساتھ ساتھ لگ کر ماسی سے زیادہ کام تو خود کرڈالیں گے۔اورامیوں کے پاس تو ماسی کو بھگانے کا نادر نسخہ ہر وقت تیار رہتا ہے کہ ایک ماسی اگر چار گھروں کا جھاڑو برتن کر سکتی ہے تو چار عورتیں مل کر ایک گھر کا کام کیسے نہیں کرسکتیں۔ لو کرلو گل ۔ اور غریبوں نے کب نان اسٹک برتن استعمال کیے تھے، اب جو نان اسٹک برتن ہاتھ آئے بس بندر کے ہاتھ استرا لگ گیا ۔ اسٹیل والے جونے سے مانجھ مانجھ چمکا دیے، خود نہیں تو گھر کی کسی اور نیک پروین نے :P