Friday, January 22, 2016

ایک اندھا ایک کوڑھی: پرفیکٹ لو اسٹوری

قاہرہ میں قیام کے دوران ہمارا واسطہ بہت سی مشرقی یورپی خواتین سے رہا ۔ ان میں سے کچھ خواتین تو ہماری ہی کورس میٹ تھیں اور کچھ ان کی ہموطن خواتین تھیں جو مصر میں مختلف کلچرل ایکسچینج پروگرامزکے تحت عربی لینگویج کورسز کرنے آئی تھیں۔

زیادہ تر مشرقی یورپی ممالک 90 کی دہائی میں سوویت یونین اور کمیونزم سے آزاد ہوئے تھے۔ کچھ یورپی ممالک یوگوسلاویہ کے ٹکڑے ہونے کے بعد وجود میں آئے تھے۔ ان تمام ممالک میں چند خصوصیات مشترک تھیں اور شاید اب تک ہیں ۔ یہ سب کے سب کسی نہ کسی ایسی سیاسی یا غیر سیاسی پارٹی کے زیرِ حکومت تھے جو اِن ڈائریکٹلی ان ہی ملکوں کے کے اشاروں پر ناچتی تھی جن سے یہ ممالک آزاد ہوئے تھے۔ گرانی، بے روزگاری، افراط زر ، اقرباء پروری اور رشوت [کیش اینڈ کائنڈ دونوں طرح کی] کا دور دورہ تھا۔ ان ممالک کی خوش قسمتی یا بد قسمتی سے انکے ہاں خواندگی کا تناسب 99 فیصد سے زائد ہے اور ظاہر ہے کہ ان ممالک میں نہ صرف تمام افراد کے لیے نوکریاں مفقود ہیں بلکہ نوجوان خواتین کے لیے برسرِ روزگار بوائے فرینڈز یا مستقبل کے مجازی خدا بھی available نہیں ۔

اب آپ ایک نوجوان،  تعلیم یافتہ اور ماڈرن خاتون ہوں،ماڈرن زندگی کے نشیب و فراز سے معہ اخراجات اچھی طرح واقف ہوں ، کوئی آپکا خرچ اٹھانے کے لیے موجود نہ ہو اور آپکو زمانے کے ساتھ بھی چلنا ہو تو کریں کیا ۔ تو یہ خواتین ستاروں سے آگے نئے جہان تلاش کرنے عرب ممالک کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہیں ۔ بظاہر پڑھنے یا عربی سیکھنے ۔ سند باد ، الف لیلیٰ اور اس قسم کے قصہ کہانیوں اور فلموں سے یہ خواتین یہ اخذ کرتی ہیں کہ ہر عرب ایک شیخ ہوتاہے، انتہائی دولت مند اور فیاض ۔۔ 

مصر چونکہ عرصے سے عرب دنیا کا تعلیمی و ثقافتی مرکز رہا ہے اور یورپی ٹوورزم کی وجہ سے وہاں مختلف عرب ممالک کے دولتمند افراد کا اجتماع رہتا ہے۔ خاص کر ان ممالک کے امراء کا جہاں کھل کر کھیلنے پر مذہبی پابندیاں بہت  زیادہ ہیں ۔ ہالی وڈ کی فلموں میں گوری میموں کو تواتروعجلت میں خلعت و عفت سے فراغت پاتے دیکھ کر جن کا خیال ہوتا ہے کہ گوریاں تو بس ہر گھڑی "تیار و کامران" ہوتی ہیں  اور پیسے سے ہر "چیز" خریدی جاسکتی ہے۔

مشرقی یورپی حسیناوں کی ضرورت ہوتی ہے پیسہ، مہنگے ملبوسات، پرفیومز، جوتے، لمبی گاڑی میں مفت کی سیر و تفریح ، پینا پلانا، پارٹی شارٹی اور ایک نسبتاً سیاہی مائل بوائے فرینڈ جو یہ ساری ضروریات پوری کرسکتا ہو، ہر طرف سفیدہ دیکھ یکھ کربندے کا جی اکتا جاتا ہے سو گوریوں کے لیے ایک میلا سا بوائے فرینڈ بھی ایک فیشن ہے۔

اور ادھر عرب "شیخوں" کی خواہش ہوتی ہے عورت، جس کی چمڑی چٹی ہو تو سونے پر سہاگہ، ایک وائیٹ گرل فرینڈ عرب نوجوانوں میں ویسے ہی اسٹے ٹس سمبل ہے جیسے گوریوں میں ایک کالا بوائے فرینڈ۔ سو ایک گوری جو غیرضروری لباس سے عاری ہو، جسے ساتھ بیٹھنے لیٹنے اور اس سے آگے کے مراحل میں کوئی حجاب مانع نہ ہو، انکے لیے ایک نعمت ہوتی ہے۔ اور جب یہ شیخ اور میم صاحبان مصر میں باہم شیر و شکر ہوتے ہیں توجیسے "اللہ مِلائی" جوڑیاں بنتی ہیں۔

جب بھی ان میں سے کوئی ایک  اپنی کپل سلفیز فیس بک پر پوسٹتا ہے اورلوگ اس پر پرفیکٹ لوّ جیسے ریمارکس دیتے ہیں تو ہماری ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ ایسے میں ہم اس کے سوا اور کیا کہیں کہ 

ایک اندھا ایک کوڑھی
پرفیکٹ لو اسٹوری