ہم اپنے ہر خیال، عمل اور رویے کے لیے دلیلیں تلاش کرتے ہیں تو سب سے پہلے نہیں تو سب سے آخر میں قران و حدیث تک پہنچ جاتے ہیں۔ کہ ہمارا سب سے اہم حوالہ اللہ کا کلام اور اسکے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ عموماً قران اور حدیث میں سے ایک دو باتوں کا حوالہ دے کر خواتین کو مردوں سے کم تر اور کم عقل قرار دیا جاتا ہے، جس کی بنیاد پر پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت عورتوں کو ان کے جائز حقوق سے بھی محروم رکھتی ہے۔ جسے عام زبان میں صنفی امتیاز یا صنفی تفریق کا نام دیا جاتا ہے۔ تو روز مرہ زندگی میں جن قرانی معلومات اور احادیث کو ہم دن رات دہراتے رہتے ہیں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
سب سے پہلی بات کہ اللہ کو کون زیادہ محبوب ہے، مرد یا عورت۔ تو قران میں بارہا ایک ہی بات دہرائی گئی ہے کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک معتبر وہ ہے جس کا تقویٰ بہتر ہے۔ یہی بات حجۃ الوداع کے موقعے پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بھی دہرائی کہ عربی کو عجمی پر اور سرخ/ کالے کو گورے پر یا اسکے برعکس کسی کو کسی پر اولیت نہیں سوائے تقویٰ کے۔ یعنی جو اللہ سے زیادہ سے زیادہ ڈرے/ محبت کرے / عبادت کرے وہی اللہ کو محبوب ہے۔ اس میں مرد و عورت کی کوئی تفریق نہیں، نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ عورت کی عبادت کا ثواب مرد کی عبادت سے نصف ہوگا۔ دونوں کی عبادت کا ایک ہی اجر ہوگا۔ نہ ہی کہیں یہ کہاگیا کہ عورتوں کو مردوں سے دو گنا عبادت پر جنت میں داخلہ ملے گا۔
ایک حدیث میں ہر مسلمان مرد اور عورت دونوں پر علم حاصل کرنا فرض کہا گیا ہے، اس میں بھی مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں، اور شاید عورت کا خصوصی تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ اندازہ ہوگا کہ دور جاہلیت پھر سے لوٹ کر آئے گا جب عورتوں کو زندہ دفن تو نہیں لیکن زندگی ان پر تنگ کر دی جائے گی ، ایسے میں علم ہی ہوگا جو ان کی زندگی بہتر بنانے میں ان کے کام آسکےگا۔
قریش کی طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی ایک عورت چور ی کے مقدمے میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئی، کچھ لوگوں نے اس کی سفارش کی کہ اس کے ساتھ نرم معاملہ کیا جائے، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر محمد کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہ بھی چوری کرتی تو میں اسکا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ یعنی جرم کی سزا میں مرد و عورت کی کوئی تفریق نہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ اسلامی حد میں چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔
پھر ایک حدیث ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ یہاں ایک مرد کی جان بچانے کا ذکر نہیں ہورہا، نہ ہی ایک مسلمان کی جان کا تذکرہ ہورہا ہے۔ یہ ایک انسانی جان کا تذکرہ ہے جو ایک عورت کی بھی ہوسکتی ہے اور ایک غیر مسلم کی بھی۔
ایک صحابی نے عرض کی کہ مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے، فرمایا تیری ماں کا، دوبارہ دریافت کیا گیا، دوبارہ فرمایا، تیری ماں کا، سہ بارہ دریافت کرنے پر بھی یہی جواب ملا، چوتھی بار جواب دیاگیا، تیرے باپ کا۔ ۔ جن لوگوں کو عورتوں کی آدھی گواہی اور وراثت میں مرد کی نسبت آدھا حصہ نظر آتا ہے انہیں ماں کی باپ پرتین گنا فضیلت کیوں کہ نظر نہیں آتی۔ جنت بھی ماں کے قدموں تلے ہے، باپ کے نہیں۔
باپ کی جائیداد میں عورت کا حصہ ، مرد کے حصے سے آدھا ہے، کیوں کہ اسے ایک حصہ اپنے شوہر سے مہر کی صورت ملنا ہوتا ہے، ایک غلط فہمی جو ہمارے معاشرے میں عام ہے کہ عورت نے مہر معاف کردیا یا معاف کروالیا گیا تو شوہر مہر سے بری ہوگیا۔ وراثت کی طرح مہر کسی بھی صورت معاف نہیں ہوتا اور شوہر اس سے بری نہیں ہوسکتا۔ یہ عورت کا حق ہے اور کسی صورت اس سے مفر نہیں۔ جو مرد مہر ادا نہیں کرتا وہ ہمیشہ گناہ گار رہتا ہے ، اور اسی حالت میں مرنے کی صورت میں وہ مقروض رہے گا۔
اسلامی معاشرے یا ملک میں عورت بزنس کر سکتی ہے، اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے، خود شادی کا پیغام دے سکتی ہے ۔ بچپن کے نکاح کو اگر پسند نہ ہو تو ختم کرسکتی ہے۔
جب علی ابن ابی طالب کی شادی فاطمہ بنت محمد سے ہونے لگی تھی تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ گھر داری کے لیے کیا انتظام ہے، پھر پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے، فرمایا ایک زرہ اور ایک تلوار۔ رسول اللہ نے تلوار علی رضی اللہ کو واپس کردی اور زرہ فروخت کر کے گھر کےلیے ایک چکی، ایک بستر اور روزمرہ استعمال کی اشیا ء کا بندوبست فرمایا۔ اس سے یہی پتا چلتا ہے کہ جہیز یا گھرداری کا انتظام مرد کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اگر تم نکاح کی استطاعت نہ رکھتے ہو تو روزہ رکھو۔ نکاح کی استطاعت سے مراد گھر داری کا انتظام ہی ہوا ۔
پھر گھر کا کام، سسرال والوں کی خدمت اور بچوں کی دیکھ بھال سے عورت بری ہے، کہیں بھی ایسا حوالہ نہیں ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساس سسر کی خدمت کی، [رسول اللہ کے والدین بچپن میں فوت ہوچکے تھے اس لیے امہات المومینین کی زندگی سے یہ مثال نہیں مل سکتی] وہ ایک الگ گھر میں بیا ہ کر گئیں تھیں۔ امہات المومنین میں سے ہر ایک کو الگ گھر میں رکھ گیا تھا۔ عورت چاہے تو اپنی ہی اولاد کو دودھ پلانے کا معاوضہ اسکے باپ/ اپنے شوہر سے طلب کر سکتی ہے ۔
ایک حدیث میں بیٹی کو اللہ کی رحمت کہا گیا ہے، ہم اس رحمت کی ناشکری اور ناقدری کرتے نہیں تھکتے۔ ایک اور حدیث میں اس عورت کو خوش قسمت کہا گیا ہے جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو، ہم اس عورت اور اسکی بیٹی کو کبھی راوی میں دھکا دے دیتے ہیں، کبھی ہسپتال میں ہی چھوڑ آتے ہیں اور کبھی طلاق دے کر معاشرے میں رلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک حدیث میں اس شخص کو جنت کی بشارت / روز قیامت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کی بشارت دی گئی ہے جس نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی پرورش کی ہو۔ لیکن کون ہے جو ایک کے بعد دوسری بیٹی کی پیدائش پر کم از کم افسردہ نہ ہوتا ہو۔ ایسی خاص ہدایات مردوں یا بیٹوں کے بارے میں نہیں ہیں۔
ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی اس لیے ہے کہ عورتیں مردوں سے مختلف ہیں اور ان کا ذہن بیک وقت کئی کاموں اور معاملات میں مصروف ہوتا ہے اس لیے ان میں بھولنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔اور یہ ایک مخصوص معاملے یعنی کورٹ میں گواہی کے لئے ہے، اس سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہر معاملے میں عورت کو مرد سے کمتر/ پس پشت رکھا جائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف چند معاملات میں جہاں عورتوں کو مردوں سے مختلف / کم تر قرار دیا گیا ہے ، کو بنیاد بنا کر عورتوں کو ہر معاملے میں صنفی تفریق کا نشانہ کیوں کر بنایا جائے جبکہ دیگر مقامات پر اللہ اور اسکے رسول صلیٰ علیہ وسلم نے عورت کو مرد کے برابر اور چند مقامات پر مردوں سے افضل بھی قرار دیا ہو۔ کہیں ہم اللہ کی مقرر کردہ حدوں سے آگے بڑھ کر اور اسکے دائرہ کار میں گھس بیٹھیے بن کر شرک کے مرتکب تو نہیں ہورہے؟؟