Wednesday, March 11, 2015

وے میں چوری چوری

گزشتہ دنوں ٹھٹھہ سے کچھ فاصلے پر ور/ سخی داتار کی طرف جانا ہوا ... سخی داتار مزار کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب ہمیشہ چند مزارات قسم کی قبریں نظر آتیں . لیکن کبھی اس طرف جانا نہ ہوا, بس مزار پہ فاتحہ پڑھتے, ارد گرد بیٹھے خوانچہ فروشوں سے ونڈو شاپنگ کرتے اور ایک مہربان سے چائے پی کر واپس ہو جاتے ... اس بار میں طے کر کے گئی تھی کہ میں یہ قبریں دیکھ کر ہی آؤں گی .

سو مزار کی طرف جاتے ہوئے میں نے گاڑی رکوائی اور کیمرہ لے کر اتر گئی .. باقی پارٹی کو کہا کہ آپ جاؤ مزار پہ ..
میں ادھر جارہی ہوں ... مجبوراً ابو کو بھی میرا ساتھ دینا پڑا .. اور جہاں پھپھو اور دادا وہیں فاطمہ .

ہمارا چھوٹا سا قافلہ قبرستان کی طرف چل پڑا .... قریب جاکر پتا لگا کہ یہ کوئی چوکنڈی کی قسم کا پرانا قبرستان ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں .. کچھ قبروں کو چونے اور گارے سے مرمت کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن پھر کام درمیان میں ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا .. غالباً حکومت تبدیل ہو گئی ہوگی. ہمارے اندازے کی تصدیق وہاں نوتعمیر شدہ افتتاحی تختی سے بھی ہوتی تھی جو ابھی تک کنواری کنیا تھی .. اس پر کچھ بھی نہ لکھا تھا .

جگہ جگہ قبروں کے ٹوٹے ہوئے منقش پتھروں کے ڈھیر تھے ... ایک جگہ بہت سی قبروں کے پائے ڈھیر تھے تو دوسری جگہ قبروں کے سرہانے ڈھیر تھے ... زیادہ تر پتھر باہر کی جانب سے کالے تھے جیسے پورے قبرستان کو جلادیا گیا ہو ... چار مقبرے مکمل حالت میں تھے مرمت شدہ ... 

خیر قبروں کے درمیان پھرتے پھراتے ایک پتھر کا ٹکڑا تقریباً چھ انچ کا ہماری توجہ کھینچ لے گیا .. ارد گرد دیکھا کوئی والی وارث ہے کہ نہیں .. دوروں دور تک بندہ نہ بندے کی ذات ... جھٹ سر سے کیپ اتاری اور پتھر گول مال کرلیا ..

بظاہر یہ چوری نہیں تھی کیونکہ ہم نے کسی کی ملکیت پر ہاتھ بلکہ ٹوپی نہیں صاف کی تھی ... لیکن اندر سے ہمیں پتہ تھا کہ نوادرات بہر حال حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں اور حکومت چرس پی کر سوئی پڑی ہے ..

اب وہ پتھر ٹوپی میں لپٹا ہمارے ہاتھ میں اور ہاتھ دوپٹے کی اوٹ میں ... لیکن چور کی داڑھی میں تنکا ... ہمیں ہر لمحہ لگے کہ ابھی کوئی آئے گا اور ہم سے ایک نادر و نایاب پتھر برامد کرے گا ... کر بھی لیتا تو کسی کو کیا پتا چلنا تھا کچھ لے دے کر معاملہ وہیں مُک جانا تھا ... پر ہمیں تو پتا ہوتا ناں کہ ہماری انسلٹ ہوئی ہے ہم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں ... اور بے عزتی وہی خراب ہوتی ہے جوآپکو خود معلوم ہو کہ ہوگئی ہے ... خود کو جب تک نہ محسوس ہو نہیں ہوتی ..

تھوڑی دیر گزری تھی کہ دو عدد دیہاتی ہماری جانب آتے نظر آئے ... ہائے نہ پوچھیں ہمارے دل کی کیا حالت ہوئی ہے ... گلا خشک اور منہ پہ بارہ تیرا سب بجے ہوئے ... وہ تو سائیڈ سے گزر کر چلے گئے شکر ہوا کہ سورج ڈوب چکا تھا ورنہ وہ ہمارے چہرے پر تحریر چوری ضرور پڑھ لیتے ...

ہم روزمرہ زندگی میں بھی تو یہی کرتے ہیں ... ہمارے اپنے دل میں اگر چور ہو تو ہم شاہراء عام سے ہٹ کر کہیں اندھیرے میں پناہ ڈھونڈتے ہیں کہ کوئی ہمارے چہرے پر ہمارے دل کا چور نہ پڑھ لے ...