Thursday, August 20, 2015

ادھورے گلے، شکوے، شکایتیں، زخم اور خواہشیں

بعض گلے شکوے، شکایتیں اور زخم ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم بہت محبت سے پالتے ہیں۔ ہم ان کا ازالہ نہیں چاہتے، انہیں دہراتے رہتے ہیں، تازہ رکھتے ہیں، یہ ہماری زندگی کی مصروفیت ہوتے ہیں، جیسے ہی ماند پڑنے لگتے ہیں ہم انہیں پھر سے تازہ کر لیتے ہیں۔

یہ عادت کسی فرد میں بھی ہوسکتی ہے اور قوم میں  بھی ۔ یہ ہمارہ سرمایہ حیات ہوتے ہیں ہمارے جینے کی وجہ ہوتے ہیں۔ شاید ان کا حل ہم سے جینے کی امنگ چھین لے۔ یہ پالے ہوئے دکھ ہمارے لیے کسی شراب سے کم نہیں ہوتے جس میں ہم ہر دم مست رہنا چاہتے ہیں۔ بعض خواہشات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی آرزو کرتے رہنا ہی مد نظر ہوتا ہے، حصول نہیں۔

جیسے باسٹرڈ آف استنبول میں ایک آرمینئین کردار ازمیر/ترکی میں آرمینئینز کی جینوسائیڈ کے بارے میں کہتا ہے کہ آرمینینز کی جینو سائیڈ کچھ لوگوں کے لیے ایک جہد مسلسل ہے، اگر ترکی اسے جینو سائیڈ قبول کرلے تو ان کی زندگی کا سرمایہ چھن جائے گا۔ یہ وہ مضبوط ترین قوت ہے جو انہیں جوڑ کر رکھتی ہے۔

"the truth is ..... some among the Armenians in the diaspora would never want the Turks to recognize the genocide. If they do so, they will pull the rug out from under our feet and take the strongest bond that unite us. Just as the Turks have been in the habit of denying their wrongdoing, the Armenians have been in the habit of savoring the cocoon of victimhood. Apparently, there are some old habits that need to be changed on both sides."


بالکل اسی طرح فرد بھی اپنے بعض زخموں کو اس قدر عزیز رکھتا ہے کہ جیسے ہی ان پر کھرنڈ آنے لگتا ہے وہ اس کھرنڈ کو کھرچ کر زخم کو پھر سے نیا کر لیتا ہے۔ 
ایسے ہی بہت سے ملکوں میں بہت سے سماجی گروہ بہت کچھ تبدیل کرنا چاہتے ہیں، جو وہ چاہتے ہیں اگر وہ ہو جائے تو انکے ہونے کا جواز ہی ختم ہو جائے، جیسے کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی گروہ اور تنظیمیں۔ جیسے کہ آبادی پر کنٹرول کرنے یعنی بچوں کی پیدائش کنٹرول کرنے کا ادارہ۔ جیسے کہ اب امریکہ میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اب کیا کریں گے۔ جیسے کشمیر کا مسئلہ۔ 
بعض اوقات یہ امید ہی نہیں ہوتی کہ یہ زخم بھر بھی سکتا ہے، یہ خواہش پوری بھی ہوسکتی ہے، اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر کیا ہوگا ۔۔ جیسے پاکستان میں کسے امید تھی کہ جمہوریت آ بھی سکتی ہے خدا نخواستہ ۔۔ سو اس کے لیے تحریکیں چلاتے رہے ۔۔ لیکن ہونی ہو کر رہتی ہے ، سو جمہوریت تو آ ہی گئی، پھر سب نے دیکھا کہ ہم نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کر رہے ہیں ۔۔
ایسے ہی مصر میں انقلاب آیا تھا ، کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ اس کے بعد کرتے کیا ہیں ۔۔ نتیجہ حسنی مبارک کے بعد جرنل سیسی وہی کر رہے ہیں جو حسنی مبارک کر رہے تھے اور عوام بھی وہی کر رہے ہیں جو وہ پہلے کرتے تھے، یعنی جمہوریت کی آرزو 
شکر ہے دھرنا ناکام ہوگیا، اگر کامیاب ہو جاتا تو کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہ رہتا ۔