Tuesday, November 1, 2016

ذہنی ارتقاء اور سماجی روئیے

میری پانچ سالہ بھتیجی فاطمہ ہر ٹرپ پر دورانِ سفر میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھتی ہے, اور بے دھیانی میں یا جان بوجھ کر میرے پیر سے پیر ٹکراتی رہتی ہے .. میں اس کی ٹکروں سے بچنے کے لیے اپنے پیر دائیں بائیں شفٹ کرتی رہتی ہوں اور وہ بے دھیانی میں بھی اپنے پیر ادھر ادھر گھما پھرا کر پھر میرے پیروں پر رکھ دیتی ہے۔

یہ آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ میں تنگ آجاتی ہوں اور ذرا چڑ کر اسے اپنے پیر سنبھالنے کو کہتی ہوں۔  تھوڑی دیر وہ خیال کرتی ہے لیکن کچھ ہی دیر میں پھر اس کے پیر میرے پیروں پر ہوتے ہیں۔

اس کا ارادہ مجھے پریشان کرنے کا یا مجھے تنگ کرنے کا نہیں ہوتا وہ صرف اپنے آپ کو کمفرٹیبل کر رہی ہوتی ہے, یعنی جس پوزیشن میں وہ خود آرام دہ محسوس کرتی ہے ویسے ہی بیٹھنا چاہتی ہے , کیونکہ وہ ابھی چھوٹی ہے اس کی ذہنی نشو نما ابھی جاری ہے۔ اس لیے اسے دھیان نہیں رہتا کہ خود کو آرام دینے کے لیے وہ مجھے تکلیف پہنچا رہی ہے یا پریشان کر رہی ہے۔

فاطمہ تو محض پانچ سال کی ہے۔ لیکن میں نےلانگ ٹرپس کے دوران بھی مشاہدہ کیا ہے کہ بہت سارے بالغ افراد بھی یہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ انہیں کسی بھی ٹور کے دوران صرف اور صرف اپنے آرام اور اپنی کمفرٹ کا خیال ہوتا ہے خواہ اسکے لیے وہ دوسروں کے لیے باعث آزار ہو جائیں۔ یقیناً کسی بھی صورت حال میں اپنا خیال خود رکھنا ایک اچھی بات ہے لیکن صرف اپنے آرام کا خیال کرنا وہ بھی دوسرے ساتھیوں کی تکلیف کی قیمت پر۔ پھر گروپ میں سے کسی نہ کسی کو انہیں بتانا پڑتا ہے کہ زمین ابھی تک سورج کےگرد ہی گھومتی ہے ان کے گرد نہیں۔

میں فیصلہ نہیں کرپاتی کہ ایسے ہم سفر خود غرض ہوتے ہیں یا ذہنی ارتقاء کی سیڑھی پر وہ ایک پانچ سالہ بچے کے مقام پر ہی ٹھہر گئے کہ اپنے آرام کی خاطر دوسروں کی پریشانی کا ادراک نہیں کرپاتے۔

"سفر ایک ایسی چھلنی ہے جس میں آپ کی ساری کمینگی چھن کر اوپر آجاتی ہے"
                                                                                                                                    مستنصر حسین تارڑ