Tuesday, November 29, 2016

روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں


حال دل رو برو سنانے کا جو لطف ہے اس کا تو کوئی بدل ہی نہیں لیکن ہر ایک کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر ایک میں دل کی بات رو برو کہہ دینے کی جرات ہوتی ہے اسی لیے خط لکھنے کی روایت پڑی ہوگی۔ ویسے بھی رو برو بات کہنے میں یہ بھی امکان رہتا ہے کہ اگلا آپ کی بات کاٹ کر اپنی رام کہانی شروع کردے اور آپ کی بات درمیان میں ہی کہیں رہ جائے۔

اردو شاعری سے اگر"نامہ بر" کو نکال دیں توایسی وارداتوں کے امکانات ایسے ہی 50 فیصد  کم ہوجاتے ہیں جن پر  اردو شاعری کی پوری عمارت کھڑی ہے۔   عاشقان اپنے  محبوبان کو دل کا حال سنانے کے لیے خط کا سہارا لیا کرتے تھے، کبھی خون دل سے خط لکھے جاتے، ایک کونے پر دل میں پیوست تیر سجائے جاتے اور پھر کبوتروں کونامہ بر بنایا جاتا۔ خط کبوتر کے حوالے کر کے اسکے منزل مقصود پر پہنچنے کی دعائیں بھی مانگا کرتے:




واسطہ ای رب دا تو جائیں وے کبوترا
چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچائیں وے کبوترا
 پردیسی بیٹوں کی مائیں یا انکی فرقت میں بے حال بیگمات دل کا حال سنانے کوخط کا سہارا لیا کرتی تھیں۔  اگر پردیسی پاکستان ہی کے کسی بڑے شہر میں ہے تو پوسٹ کارڈ بھی لکھے جاتے تھے جن پر لکھا حال دل ہر مقام پر ہر کوئی پڑھتا جاتا اور اسطرح پوسٹ کارڈ سفر کرتا ہوا اپنے "مخاطب" تک پہنچتا کہ ڈاکیے کو ہی اس کے اوپن سیکرٹس پڑھ کر سنانے پڑتے۔

اگر مکتوب الیہ محنت مزدوری کے لیے کسی خلیجی ریاست میں مقیم ہوتا تو  پاکستان سے ماؤں کی دعائیں اور بیگمات کی فرمائشیں کسی پڑھے لکھے پڑوسی یا رشتہ دار سے مرتب کروا کر خط پوسٹ کیا جاتا تھا، وہ ہفتوں میں  پہنچتا تھا اور مہینوں بعد اسکا کوئی جواب آتا تھا۔ ڈاکیے کی بھی  ویلیو ہوتی تھی کیونکہ خط اسی نے پڑھ کے سنانا ہوتا تھا اور  خط کی اپنی ایک  فینٹسی ہوتی تھی۔ ایک بار سن کر یا پڑھ کر دل ہی نہیں بھرتا تھا بار بار پڑھا جاتا یا پڑھوایا جاتا، جو پڑھ نہیں سکتے تھے وہ بار بار خط کو کو ہاتھ میں لے کر اپنے پیارے کے لمس کا محسوس کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ خط سینت سینت کر رکھے جاتے تھے۔  اور جو کبھی خط کا جواب آنے میں ذرا دیر ہوگئی تو

" دل کا حال سنائیں کس کو ہم دکھ درد کے مارے لوگ "

قسم کے گانے سننے شروع کردیتے تھے۔

 اگر کبھی کوئی قریبی یا دور دراز کا جاننے والا دبئی سے آ یا  دبئی کو جارہا ہوتا تھا تو آڈیو کیسٹ میں حال دل ریکارڈ کر کے بھیج دیا جاتا تھا جسے محبت کی ماری ماں یا فرقت کی ماری گھر والی بار بار ریوائنڈ کر کے سنتی تھی اور اور اپنے پیارے کی آواز سن کر دل کو تسلی دے لیتی تھی۔ دوسری طرف بھی یہی حال ہوتا تھا۔ درمیانی عرصے میں ہر دو اطراف میں خیریت فرض کر لی جاتی تھی۔  فون پر بات تو کسی انتہائی ناگہانی کی صورت میں ہی ہوا کرتی تھی۔  شہروں میں پردیس سے  فون آنے کا مطلب وہی ہوتا تھا جو گاؤں دیہات میں  شہر یا دوسرے گاؤں سے "تار" آنے کا ہوتا تھا


فون ایک نایاب اور مہنگی قسم کی لگژری ہوتا تھا۔ جو ہر ایک کے گھر تو کیا ہر ایک کے محلے میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ کہیں دور دراز کسی مارکیٹ میں ایک پبلک کال آفس یعنی پی سی او ہوتا تھا پہلے وہاں لائن لگاؤ، نمبر لکھاؤ، پھرانتظار کرو، آپریٹر کال ملائے گا اور پھر فی منٹ کے حساب سے بات ہوگی، بندہ بات کم کرتا تھا منٹ اور پیسوں کا حساب زیادہ کرتا تھا۔ آج کے بچوں کو پی سی او کے بارے میں کچھ علم نہیں بلکہ لینڈ لائن ٹیلی فون کی تصویر دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ بتاؤکہ ٹیلی فون ہے تو ایسی بے اعتباری نظروں سے دیکھتے ہیں کہ جیسے  ہم ان سے جھوٹ بول رہے ہوں۔ 

پھر یہ ہوا کہ کمیونیکیشن کی دنیا میں ایک انقلاب آگیا۔ اب ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون اور موبائل فون میں درجنوں قسم کے میسنجرز آگئے جن پر آواز، تصویر، ویڈیو ہر طرح کی کالنگ کی سہولت ہوتی ہے۔ پرائے دیس تو کیا سات سمندر پار بیٹھے ہوؤں سے ہم چوبیس گھنٹے connected رہتے ہیں۔ اتنے زیادہ رابطے میں رہتے ہیں کہ بعض اوقات کرنے کے لیے کوئی بات ہی نہیں ہوتی، دعا سلام ، خیریت اور پھر "واٹس اپ "، "اور سناؤ" ، "اور بتاؤ" پر نوبت آجاتی ہے۔  آگے کیا بات کی جائے کہ چند گھنٹے پہلے ہی تو گپ شپ کر کے سونے گئے تھے۔ ان چند گھنٹوں میں کونسا دنیا میں انقلاب آگیا ہے جس پر ڈسکشن کرے بندہ ۔ 


جب مہینے بھر بعد خط لکھا جاتا تھا تو کرنے کو ڈھیروں ڈھیر باتیں ہوتی تھی۔ گھر کے ہر فرد کی الگ الگ خیریت، خاندان برادری، محلے میں کس کا کس سے رشتہ طے ہوگیا، کسی کی کس سے شادی ہوگئی اس میں کس کس نے پھڈے کیے، کون کون ناراض ہوگیا۔ کس کے ہاں کاکا ہوا، کس کی چھوری کا کس کے چھورے سے آنکھ مٹکا چل رہا ہے، کس کی کس سے بول چال بند ہے، کس کی بکری بیاہی گئی ، کس کی بھینس نے کٹا اور کس کی مرغی نے انڈا دیا ہے، کس کو بخار ہوا، کس کو نزلہ کھانسی، کون فوت ہوگیا اور کیوں۔  غرض زمین و آسمان کے درمیان ہزارہا موضوعات ہوتے تھے خط میں لکھنے کو۔ 

اور اب ،، اب ہم پڑھ لکھ گئے ہیں، تمیز دار ہوگئے ہیں ۔ اب ہم انفرادی یا شخصی آزادی کے نام پراپنے ارد گرد کے لوگوں سے بیزار ہوگئے ہیں ۔ بظاہر ہم ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے لیکن اصل میں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی بیمار ہے یا مسائل میں گھرا ہوا ہے، کیونکہ اگرہمیں  فرق پڑنے لگے تو اس سے ہمارا ٹائم ضایع ہو گا اور ہمارا ٹائم تو بہت قیمتی ہے۔ خیر یہ بات تو ایسے ہی درمیان میں آگئی ۔ ۔ اسے نہ ہی پڑھا جائے ، ایویں ای  وقت ضایع ہوگا۔ 

لیکن سب سے بڑا ظلم اس تیز رفتار ترقی نے اردو زبان، ادب،  فلم، شاعری اور اردو محاورات پر کیا ہے۔  ان سارے میسنجرز، موبائل کالز / ایس ایم ایس  پیکجز نے نامہ بر، کبوتر کے ساتھ ساتھ ڈاکئے کی بھی چھٹی کر دی ہے۔  بھلا اب ڈھول سے تو  ہفتے کے ساتوں دن  اور چوبیس گھنٹے جب چاہیں ہیلو ہائے کی جاسکتی ہے تو بھلا ان سب کی کیا ضرورت ہے۔ اور جب ان سب کی کوئی ضرورت نہیں تو بھلا ان اصطلاحات کا شاعری میں کیا کام۔

کمیونیکیشن کی اس زیادتی نے تو رومانس کے سارے رومنٹسزم Romanticism  کا بھی بیڑا غرق کردیا ہے۔ کون اب ہجر و فراق سے گزرے گا اور  قصے لکھے گا اور اگر لکھے گا تو کون ان قصوں کو پڑھ پڑھ کر ان کے بہانے کون اپنے ہجر و فراق پر  آہیں بھرے گا۔ کون محبوب کی اک جھلک دیکھنے کو گلیوں کے چکر لگاتا ہے اور کون دھمکیاں دے گا کہ "تیری گلیوں میں نہ  رکھیں گے قدم آج کے بعد" کیوں کہ اب تصویرِ یار دل کے آئینے میں نہیں موبائل کی لاک اسکرین پر لگی ہوتی ہے۔ اب ڈھول کو اک پھول موتئیے کا مار کر نہیں بلکہ مسڈ کال مار کر جگایا جاتا ہے۔

اگلی نسلوں کو اس قسم کے گانوں کا مطلب بھی سمجھ نہ آئے گا جن میں ہیروئن ہیرو سے گا گا کر فرمائیشیں کر رہی ہوتی ہے کہ "دیس پرائے جانے والے وعدہ کرتے جانا ، مجھے خط لکھو گے روزانہ" اور اس فرمائیش میں کیا کیا نہ تھا، جدائی، انتظار،  خدشات اورمان و یقین اورپھر جب خط وصول ہوجاتا تھا تو "خط پڑھ کے تیرا آدھی ملاقات ہوگئی" ہم تواب متذبذب ہیں کہ اگر خط آدھی ملاقات ہوتا تھا تو ویڈیو چیٹ کو ملاقات کے کونسے مرحلے میں فٹ کریں۔ فون کال کو کیا درجہ دیں اور واٹس ایپ کو کس کھاتے میں گنیں۔

اور شاید اردو ہی نہیں ہر زبان کے ادب پر ایسا ہی ظلم ہوا ہے۔ آنے والی نسلیں کیسے سمجھ پائیں گی کہ سوہنی نےواٹس ایپ میسج  کرنے کے بجائے کچے مٹکے پرجا کر ملاقات کرنی کیوں ضروری سمجھی، کیا اس کے گاؤں کے  سپر اسٹور پر فش فرائز نہیں ملتے تھے کہ مچھلی فرائی کھانے کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتی تھی۔ جانا ہی تھا تو کم از کم موبائل ایپ پر موسم اپ ڈیٹ تو چیک کرلیتی یا صاحباں کے بھائی کس قدر فارغ تھے کہ اپنی بہن کی ٹوہ میں ہی رہتے تھے۔ ان کی اپنی گرل فرینڈز نہیں تھیں یا موبائل فون نہیں تھا ان کے پاس۔   رانجھا بانسری کی ٹیون ریکارڈ کر کے ہیر کے موبائل میں ڈال دیتا وہ گھر بیٹھے ہی سن لیتی ۔ سسی نے پنوں کو جی پی ایس سے کیوں تلاش نہیں کیا۔ اگر ان سب کےپاس آج کے جدید روابط موجود ہوتے تو یہ قصے کیا رخ اختیار کرتے ، اندازہ کریں

تیز رفتار کمیونی کیشن نے عاشق، محبوب اور رومینس  کا جو حال کیا ہے ملاحظہ ہو:


ﺟﺲ ﮐﻮ ﺻﺪﻣﮧ ﺷﺐ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺎﻡ ﮐﺎ ﮨﮯ
ﺍﯾﺴﮯ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﯿﭧ ﺑﮩﺖ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﮨﮯ
.
ﻧﯿﭧ ﻓﺮﮨﺎﺩ ﮐﻮ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺳﮯ ﻣﻼ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ
ﻋﺸﻖ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﮔﻮﮔﻞ ﭘﮧ ﺑﭩﮭﺎ ﺩﯾﺘﺎﮨﮯ
.
ﮐﺎﻡ ﻣﮑﺘﻮﺏ ﮐﺎ ﻣﺎﺅﺱ ﺳﮯ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺁﮦ ﺳﻮﺯﺍﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﭖ ﻟﻮﮈ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
.
ﭨﯿﮑﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺧﻄﺎ ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﮔﮭﺮ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﻓﺲ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﺑﮭﯿﺠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
.
ﻋﺎﺷﻘﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻧﯿﺎ ﻃﻮﺭ ﻧﯿﺎ ﭨﺎﺋﭗ ﮨﮯ
ﭘﮩﻠﮯ ﭼﻠﻤﻦ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺏ ﺍﺳﮑﺎﺋﭗ ﮨﮯ
.
ﻋﺸﻖ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺴﮯ ﺍﮎ ﻧﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﮨﮯ
ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻝ ﻣﻠﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺏ ﻧﺎﻡ ﮐﻠﮏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
.
ﺩﻝ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﺟﺐ ﺍﯼ ﻣﯿﻞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﻞ ﮨﺮ ﭼﻮﮎ ﭘﮧ ﻓﯽ ﻣﯿﻞ ﺳﮯ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
.
ﻋﺸﻖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻓﻘﻂ ﺁﮦ ﻭ ﻓﻐﺎﮞ ﺗﮭﺎ ﭘﮩﻠﮯ
ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮭﺎ ﭘﮩﻠﮯ
.
ﺁﺋﯽ ﮈﯼ ﺟﺐ ﺳﮯ ﻣﻠﯽ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻤﺴﺎﺋﯽ ﮐﯽ
ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﻃﻮﺍﻟﺖ ﺷﺐ ﺗﻨﮩﺎﺉ ﮐﯽ
.
ﻧﯿﭧ ﭘﮧ ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﻧﻮﮮ ﺳﮯ ﭘﻠﺲ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﭨﺲ ﮨﻮﺗﮯ ﻧﮧ ﻣﺲ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
.
ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﮐﻮﭼۂ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﮯ ﻣﻠﺘﯽ ﺟﻠﺘﯽ
ﮨﺮ ﺣﺴﯿﻨﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﮨﻠﺘﯽ ﺟﻠﺘﯽ
.
ﯾﮧ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﮐﺴﯽ ﻋﺎﺷﻖ ﻧﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﮯ ﺍﺑﺎ ﻧﮯ ﺳﺘﺎﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ
.
ﭨﯿﮑﺴﭧ ﺟﺐ ﻋﺎﺷﻖ ﺑﺮﻗﯽ ﮐﺎ ﺍﭨﮏ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﻃﺎﻟﺐ ﺷﻮﻕ ﺗﻮ ﺳﻮﻟﯽ ﭘﮧ ﻟﭩﮏ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
.
ﺁﻥ ﻻﺋﻦ ﺗﺮﮮ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﺎ ﯾﮩﯽ ﻃﻮﺭ ﺳﮩﯽ
ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﮩﯽ ، ﺍﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﮩﯽ


شاعر: نامعلوم