عید اور مہندی لازم و ملزوم ہیں۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ مہندی ارتقاء کی کتنی منزلوں سے گزر آئی ہے۔ ہوش سنبھالا تو چاند رات پر اماں سیدھی سادی مہندی لگا کر مٹھی بند کر کے اوپر سے کپڑا لپیٹ دیتی تھیں۔ صبح اٹھ کر خشک مہندی جھاڑ کر پہلے چنبیلی کا تیل ہتھیلیوں پر لگاتے پھر ایک دوسرے سے مہندی کا رنگ میچ کرتے کہ کس کے ہاتھ پر زیادہ گہری مہندی رچی ہے۔مہندی کا رنگ تیز کرنے کے لیے کبھی اس میں چائے کا پانی ملاتے، کبھی لونگیں پیس کر، کبھی چینی پانی میں گھول کر مہندی پر لگاتے۔ پر سارے جتن کرنے کے بعد بھی ہمیشہ اماں کے ہاتھ پر ہی مہندی کا رنگ سب سے گہرا ہوتا تھا۔
پھر کچھ بڑے ہوئے تو محلے کی بڑی لڑکیوں کی دیکھا دیکھی "ڈیزائن" والی مہندی کا شوق ہوا۔ اور یہ ڈیزائن والی مہندی کیا ہوتی تھی۔ کہ اسی سادہ مہندی کو پانی ملا کر پتلا کرلیتے اور جھاڑو کے تنکے، ماچس کی تیلی یا ٹوتھ پک سے الٹے سیدھے جیومیٹریکل ڈیزائن ہتھیلی پر بنا لیتے۔ یا پھر ہتھیلی پر چوہدویں کے چاند جیسی گول ٹکیا بنا کر انگلیوں کی پوروں پر مہندی لگا لیتے۔
ابا کے پاس فرسٹ ایڈ باکس میں ہمیشہ پوٹاشئیم پرمیگنیٹ المعروف پنکی پڑی ہوتی۔ کبھی کبھی پنکی سے مہندی لگاتے۔ اس کے چند دانے تھوڑے سے پانی میں گھول کر اسے جھاڑو کے تنکے سے ہتھیلی پر ڈیزائن بناتے۔ اس میں آسانی یہ تھی کہ جب چاہے ہاتھ دھو کر "مہندی" صاف کی جاسکتی تھی۔
پھر دلہن مہندی کا دور آیا۔ یہ پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں خوب رچنے والی مہندی ہوتی تھی۔ اور عام مہندی کی نسبت اس کا پیسٹ بہت نفیس ہوتا تھا۔ اس لیے ٹوتھ پک کو اگر چاقو سے مزید باریک کرلیا جاتا تو "ڈیزائن" میں بھی نفاست آجاتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مہندی کے ڈیزائن کی شیٹس بھی بازار میں آنے لگیں۔ پلاسٹک کی چھوٹی سی شیٹ جس پر سوراخوں کی مدد سے پھول پتیاں بنی ہوتی تھیں۔ شیٹ ہاتھ پر رکھو اور اوپر سے سادی مہندی پیسٹ کردو اور پھر شیٹ اٹھا لو۔ واؤ
اس کے بعد آیا مینا بازار اور کون مہندی کا انقلاب۔ مینا بازار کریم آباد کے چوراہے پر اپنی نوعیت کا ایک منفرد بازار تھا۔ جس میں خواتین ہی خریدار اور خواتین ہی دکاندار ہوتی تھیں۔ یہیں سے کراچی میں بیوٹی پارلرز اور مہندی پارلرز کا آغاز ہوا اور کون والی مہندی اور مہندی کے حسین ترین ڈیزائنز کا بھی۔ لیکن مینا بازار میں ایک ہاتھ پر ڈیزائن بنوانے کے لیے 5 روپے کی خطیر رقم خرچ ہوتی تھی۔ تو ہر ایک مینا بازار سے مہندی لگوانے کی عیاشی افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔ اور ہمارے گھر سے تو مینا بازار تھا بھی بہت دور۔
لہذہ کون والی مہندی لا کر عید پر ڈیزائن بنانے کی ٹرائی کی گئی۔ کون میں سے بڑی باریک مہندی نکلتی۔ لیکن اسے کنٹرول کرنا بڑا مسئلہ ہوتا۔ کبھی پریشر زیادہ پڑ جاتا اور ایک ساتھ بہت ساری مہندی خارج ہوکر ڈیزائن خراب کردیتی۔ کبھی اس کے سوراخ میں کوئی باریک تنکا پھنس جاتا اور مہندی باہر آنے سے انکاری ہوجاتی۔ کبھی اب کچھ ٹھیک ہوتا تو ہاتھ ہل جاتا۔ کون مہندی کے ساتھ ہی مارکیٹ میں پانچ دس روپے میں مہندی کے ڈیزائن والی بک لیٹس ملنے لگیں جن سے دیکھ دیکھ کر ہم مہندی لگانے کی ٹرائی کرتے۔ کبھی ڈیزائن ویسا ہی بن جاتا کبھی ہتھیلی سے زیادہ بڑا ہوجاتا کبھی چھوٹا ہوجاتا۔ ایک رانی کون مہندی بھی ہوتی تھی جو ٹوتھ پیسٹ جیسی ٹیوب میں ہوتی تھی جس پر آگے ایک پلاسٹک کی نوکیلی کون فٹ ہوجاتی تھی۔ لیکن وہ ہم سے کبھی نہیں چلی۔ اللہ جانے کیسے استعمال ہوتی تھی۔
گلی، محلے اور خاندان میں جس لڑکی کو کون سے مہندی لگانا آتی اس کی بڑی ویلیو ہوتی اور بڑے نخرے بھی۔ اور پھر یہ ہوا کہ گلی گلی پالرز کھل گئے، لڑکیوں نے خود مہندی لگانا سیکھ لی، مہندی کے نام پر تیزابی کیمکلز کونز میں فروخت ہونے لگے اور گوگل پر سینکڑوں انڈین، عربی اور سودانی مہندی کے ڈیزائن دستیاب ہوگئے۔ لیکن اس دوران ہم اتنے بڑے ہوگئے کہ مہندی کا شوق جاتا رہا۔
ابا کے پاس فرسٹ ایڈ باکس میں ہمیشہ پوٹاشئیم پرمیگنیٹ المعروف پنکی پڑی ہوتی۔ کبھی کبھی پنکی سے مہندی لگاتے۔ اس کے چند دانے تھوڑے سے پانی میں گھول کر اسے جھاڑو کے تنکے سے ہتھیلی پر ڈیزائن بناتے۔ اس میں آسانی یہ تھی کہ جب چاہے ہاتھ دھو کر "مہندی" صاف کی جاسکتی تھی۔
پھر دلہن مہندی کا دور آیا۔ یہ پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں خوب رچنے والی مہندی ہوتی تھی۔ اور عام مہندی کی نسبت اس کا پیسٹ بہت نفیس ہوتا تھا۔ اس لیے ٹوتھ پک کو اگر چاقو سے مزید باریک کرلیا جاتا تو "ڈیزائن" میں بھی نفاست آجاتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مہندی کے ڈیزائن کی شیٹس بھی بازار میں آنے لگیں۔ پلاسٹک کی چھوٹی سی شیٹ جس پر سوراخوں کی مدد سے پھول پتیاں بنی ہوتی تھیں۔ شیٹ ہاتھ پر رکھو اور اوپر سے سادی مہندی پیسٹ کردو اور پھر شیٹ اٹھا لو۔ واؤ
اس کے بعد آیا مینا بازار اور کون مہندی کا انقلاب۔ مینا بازار کریم آباد کے چوراہے پر اپنی نوعیت کا ایک منفرد بازار تھا۔ جس میں خواتین ہی خریدار اور خواتین ہی دکاندار ہوتی تھیں۔ یہیں سے کراچی میں بیوٹی پارلرز اور مہندی پارلرز کا آغاز ہوا اور کون والی مہندی اور مہندی کے حسین ترین ڈیزائنز کا بھی۔ لیکن مینا بازار میں ایک ہاتھ پر ڈیزائن بنوانے کے لیے 5 روپے کی خطیر رقم خرچ ہوتی تھی۔ تو ہر ایک مینا بازار سے مہندی لگوانے کی عیاشی افورڈ نہیں کرسکتا تھا۔ اور ہمارے گھر سے تو مینا بازار تھا بھی بہت دور۔
لہذہ کون والی مہندی لا کر عید پر ڈیزائن بنانے کی ٹرائی کی گئی۔ کون میں سے بڑی باریک مہندی نکلتی۔ لیکن اسے کنٹرول کرنا بڑا مسئلہ ہوتا۔ کبھی پریشر زیادہ پڑ جاتا اور ایک ساتھ بہت ساری مہندی خارج ہوکر ڈیزائن خراب کردیتی۔ کبھی اس کے سوراخ میں کوئی باریک تنکا پھنس جاتا اور مہندی باہر آنے سے انکاری ہوجاتی۔ کبھی اب کچھ ٹھیک ہوتا تو ہاتھ ہل جاتا۔ کون مہندی کے ساتھ ہی مارکیٹ میں پانچ دس روپے میں مہندی کے ڈیزائن والی بک لیٹس ملنے لگیں جن سے دیکھ دیکھ کر ہم مہندی لگانے کی ٹرائی کرتے۔ کبھی ڈیزائن ویسا ہی بن جاتا کبھی ہتھیلی سے زیادہ بڑا ہوجاتا کبھی چھوٹا ہوجاتا۔ ایک رانی کون مہندی بھی ہوتی تھی جو ٹوتھ پیسٹ جیسی ٹیوب میں ہوتی تھی جس پر آگے ایک پلاسٹک کی نوکیلی کون فٹ ہوجاتی تھی۔ لیکن وہ ہم سے کبھی نہیں چلی۔ اللہ جانے کیسے استعمال ہوتی تھی۔
گلی، محلے اور خاندان میں جس لڑکی کو کون سے مہندی لگانا آتی اس کی بڑی ویلیو ہوتی اور بڑے نخرے بھی۔ اور پھر یہ ہوا کہ گلی گلی پالرز کھل گئے، لڑکیوں نے خود مہندی لگانا سیکھ لی، مہندی کے نام پر تیزابی کیمکلز کونز میں فروخت ہونے لگے اور گوگل پر سینکڑوں انڈین، عربی اور سودانی مہندی کے ڈیزائن دستیاب ہوگئے۔ لیکن اس دوران ہم اتنے بڑے ہوگئے کہ مہندی کا شوق جاتا رہا۔