سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ھے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
جواہر لال نہرو ایک مصروف سیاستدان اور تحریک آزادی ہندوستان کے ایک سرگرم لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شفیق اور محبت کرنے والے باپ بھی تھے۔ انہوں نے اپنی تمام سیاسی مصروفیات کے باوجود بشمول جیل کاٹنے کے باوجود بھی اپنی اکلوتی بیٹی اندرا کی تعلیم اور تربیت سے صرف نظر نہیں کیا۔ اور اندرا کی دسویں سالگرہ سے انہیں خط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو کئی سال جاری رہا۔ ان خطوط میں نہرو نے کائنات، زمین، زمین پر حیات اور زمین پرانسان اور پھر قوموں کی تاریخ کے بارے میں مختلف موضوعات کا احاطہ کیا۔
ان خطوط سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ نمبر ایک تاریخ سے نہرو کی دلچسپی اور تاریخ پر عبوراور نمبر دو اپنی اکلوتی اولاد اندرا گاندھی سے اس کی محبت، ذہنی ہم آہنگی اور اس کی تعلیم کے لیے فکرمندی۔ متعدد خطوط میں نہرو نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ نہیں جانتے کہ یہ خطوط اندرا کے علم میں کوئی اضافہ بھی کر رہے ہیں یا اندرا ان معلومات کو سمجھ بھی پارہی ہیں یا نہیں لیکن وہ ان خطوط کا سلسلہ اس لیے بھی جاری رکھنا چاہتے تھے کہ یہ خطوط تحریر کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے تھے کہ وہ جیل میں ہیں اور انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اندرا ان کے پاس ان کے ساتھ موجود ہیں۔ [ویسے اس کتاب کو پڑھنا بھی ایک ایسا ہی تجربہ ہے کہ آپ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں، آپ فیس بک و واٹس ایپ پر اس کے اقتباس اور تاثرات شئیر کرنے سے باز نہیں رہ سکتے، چاہے کوئی انہیں پڑھے نہ پڑھے لیکن آپ تو مزے لے رہے ہیں ناں]
سولر سسٹم |
نہرو کا تاریخ پر عبور اس بات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کئی سال کے عرصے پر محیط خطوط نویسی کے دوران وہ تاریخ کے کسی بھی واقعے، نکتے یا اہم موڑ کو بیان کرتے ہوئے اپنے پچھلے خط میں بتائی ہوئی کسی متعلقہ بات کا حوالہ دیتے ہیں جو اسی موضوع یا واقعے سے متعلق ہوتی ہے یا اسے مزید بہتر طور پر بیان کرنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ یا تو انہوں نے اپنے تمام خطوط کی کاپیاں اپنے پاس محفوظ رکھی ہوئی تھیں جو جیل میں رہتے ممکن نہیں یا پھر ان کی یاد داشت میں وہ تمام خطوط اسی ترتیب سے محفوظ تھے، دونوں صورتوں میں نہرو کی خود نظمی یا سیلف آرگنائزیشن اور Clarity of Concepts بہت ہی شاندار تھے۔
مذہب کی تخلیق |
یہ خطوط دو کتب کی صورت میں دستیاب ہیں۔ Letters from a Father to his Daughter اور Glimpses of World History۔ "ایک باپ کے اپنی بیٹی کے نام خطوط" بہت ہی خوبصورت کتاب ہے جس میں ایک دس سالہ بچی کو سائنسی نکتہ نظر سے کائنات کے مختلف قدرتی مظاہر اور عوامل بہت ہی آسان زبان میں دلچسپ طریقے سے سمجھائے گئے ہیں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جوتمام والدین اور ٹیچرز کو خود لازمی پڑھنی چاہیے اور پرائمری کے نصاب میں شامل ہونی چاہیے۔
جبکہ دوسری کتاب دراصل عالمی تاریخ پر ایک بہترین کمنٹری ہے جس میں مختلف ادوار میں تمام براعظموں اور خطوں میں جنم لینے والی مختلف تہذیبوں اور قائم ہونے والی سلطنتوں کے عروج، زوال اور خصوصیات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ نہرو نے دوران تعلیم تاریخ کی جو کتب پڑھیں وہ ان کی متعصب تاریخ نویسی سے مطمئین نہیں تھے لہذہ انہوں نے بذریعہ خطوط اندرا گاندھی کو تاریخ اس طور پر سمجھانی شروع کی جس میں جانبداری اور تعصب کی مقدار کم سے کم ہو۔ جہاں کہیں انہوں نے تاریخ کے کسی موڑ پر کسی بھی معاشرت، تمدن، مذہب یا ثقافت کا مشہور عام پہلو بیان کیا ہے وہیں اس پر اپنا تبصرہ بھی دیا ہے کہ ممکن ہے یہ بات اس طرح نہ ہو بلکہ اس طرح ہو۔ لیکن آج اسی نہرو اور اندرا کے ملک میں جنون کی حد تک مذہبی تعصب دیکھ کر افسوس ہوتاہے۔
ہم عموماً مختلف خطوں، ملکوں، تہذیبوں کی تاریخ عمودی سمت Chronological Orders میں پڑھنے کے عادی ہیں کہ فلاں ملک کی تاریخ فلاں سن سے شروع ہوئی اور پھر سال بہ سال اس میں کیا نئے موڑ اور انقلاب آتے رہے۔ اسی طرح مختلف تہذیبوں، مذاہب اورثقافتوں کی الگ الگ عمودی تاریخ سے ہم واقف ہیں لیکن نہرو ہر دور میں تاریخ کا Cross Sectional/ افقی جائزہ لیتا ہے اور ہر دس بیس خطوط کے بعد رک کرتہذیبوں اور خطوں کا ہم عصری تقابل کرتا ہے کہ قبل از تاریخ یا پتھر کے دور میں زمین کے مختلف خطوں میں سماجی، مذہبی اور سیاست طور پر کیا حالات تھے، قبل عیسوی، عیسوی دور کے پہلے پانچ سوسال اور ہزاریے کے اختتام پر ایشیا، افریقہ، عرب، یورپ اور امریکہ میں کیا ہورہا تھا۔
وہ بتاتا ہے کہ تاریخ کے اس خاص اسٹاپ یا اسٹیشن پر ہندوستانی، چینی، مسلم، کرسچن تہذیبوں میں سے کون سی تہذیب عروج پر جارہی تھی، کون سی تہذیب زوال پذیر تھی، کون کس پر حملہ آور تھا، کس کس خطے میں آرٹ، تحریر، آرکیٹکچر، مذہب، اور عوام ترقی کے کس زینے پر تھے۔ تاریخ بیان کرنے کا یہ طریقہ بہت سارے ابہام دور کرتا ہے اور بندے کے دماغ میں بنے تاریخ کے پزل میں کئی خالی جگہیں پر کردیتا ہے۔
نہرو کی تاریخ خوانی کی ایک خوبی غیر جانبداری ہے۔ تاریخ کے جن حصوں یا جن خطوں کی تاریخ کے بارے میں نہیں معلوم ان کا اعتراف کیا ہے۔ جہاں کہیں دیگر خطوں کی تاریخ اور ہندوستان کے حالات کا تقابل کیا ہے اور ہندوستان کے حالات و واقعات بہتر پائے ہیں وہاں کہتا ہے کہ تاریخ کی کتب میں ہندوستان کے بارے میں یہ درج ہے لیکن زمینی حالات مختلف ہوسکتے ہیں۔ جہاں وہ رومن ایمپائر میں غلاموں اور کسانوں کے حالات بیان کرتا ہے وہیں ہندوستان میں ذات پات کے نظام اور شودروں کی حالت سے بھی مثال پیش کرتا ہے۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔