Tuesday, September 29, 2020

نہرو اور تاریخ - 2

ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم





تاریخ کبھی بھی ہمار فیورٹ موضوع نہیں رہا تاریخ سے ہماری دلچسپی صرف تاریخی مقامات ہڑپہ، موئنجوداڑو، ٹیکسلا، مہر گڑھ دیکھنے کی حد تک تھی۔ کہ کہیں ذکر آئے تو ہم کہہ سکیں کہ ہاں ہم نے بھی یہ مقامات دیکھے ہوئے ہیں۔ اور یہ پتا ہے کہ ان چاروں میں سے سب سے پرانا مہر گڑھ ہے۔ یا پھر قسمت نے موقع فراہم کر دیا کہ مصر جیسا تاریخی ملک دیکھنے کو مل گیا جس کی تاریخ بس اتنی پتا ہے کہ مصر کے عجائبات سات ہزار سال پرانے ہیں۔ لیکن مصر کی الگ الگ بادشاہتیں، فرعونوں کی ترتیب اور آپسی رشتہ داریاں کوئی پوچھ لے تو گوگل کرنا پڑجائے۔ 

لیکن پھر ہمیں کہیں سے نہرو کی تاریخ کی دو کتابوں کا حوالہ مل گیا جو دراصل اس کے خطوط کا مجموعہ ہیں، وہ خطوط جو اس نے جیل میں بیٹھ کر اپنی پرائمری اور سیکنڈری اسکول کی طالبہ بیٹی اندرا گاندھی کو لکھے اور بڑی ہی فرصت سے لکھے گوکہ "تاریخ کی جھلکیا ں" ابھی تک اٹکی ہوئی ہے [پانچ سالہ منصوبہ ہی بن گئی ہے اپنی صخامت کی وجہ سے] پھر بھی یہ دو کتابیں پڑھ کر ہماری کافی سے زیادہ تاریخ سلوٹیں نکل کر سیدھی ہوگئی ہے ۔ سوچا اپنے جیسے مزید جاہلوں کی تاریخ بھی استری کردیں ثواب ہوگا۔

جیسے کہ ہندوستان کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ مطابق مڈل ایجز یا قرون وسطی کے دوران ہندوستان میں امن و امان، حکومت، و ریاست کے حالات یوٹوپین تھے۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ ہر طرف میرٹ کا بول بالا تھا،مقامی پنچائیتوں کے سامنے راجا بھی بے بس تھے، عہدیداران کے رشتے داروں کا کسی دفترمیں داخلہ منع تھا وغیرہ وغیرہ

ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کو وہ دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ محمد بن قاسم کی آمد کو وہ مسلمانوں کے بجائے عربوں کی آمد کہتا ہے اور اس پر اس کی رائے مخالفانہ نہیں یا وہ اسے ہندوستان کے ہندو /آریہ کلچر کے لیے خطرہ نہیں سمجھتا۔ عربوں کے بارے میں اس کے خیالات کافی مثبت ہیں۔ اور اپنے ہم مذہب راجہ داہر سے بھی کوئی ہمدردی نہیں، بلکہ کوئی تذکرہ بھی نہیں۔

جبکہ محمود غزنوی کی آمد سے وہ مسلمانوں کے ہندوستان پر حملوں کا آغاز گردانتا ہے جس نے ہزاروں سالہ آریہ سماج کی سربراہی کا خاتمہ کردیا۔ اور اسے وہ افغانیوں کی آمد سے تعبیر کرتا ہے۔ عربوں کو وہ ہائی لی سویلائزڈ اور کلچرڈ کہتا ہے اور افغانوں کو ظالم اور بے رحم کے الفاظ سے یاد کرتا ہے۔

کچھ مزے مزے کی باتیں پتا چلیں جیسے کہ :
  • شہاب الدین غوری پہلا حملہ آور تھا جو دہلی تک پہنچا، دہلی پر قبضہ کیا اور پورے ہندوستان پر تقریبا مسلم حکومت قائم کی۔ اس سے پہلے والے "گلیاں ای بنیاں" بس ۔ اس پر ہم ذرا چوڑے ہوگئے۔
  • موجودہ ترکی اصل ترکی نہیں یہ ارض روم یعنی قستنطنیہ تھا جہاں ترکمانستان کے باشندے فتح حاصل کر کے اسے ترکی بنا گئے دوسری طرف قستنطنیہ بھی دو نمبر ارض روم تھا۔ اصلی ارض روم دراصل روم تھا جہاں رومن ایمپائر ہوا کرتی تھی اور وہی رومن ایمپائر جو ایکچوئلی یونانیون پر مشتمل تھی۔
  • چنگیز خان میگنا کارٹا کا ہم عصر تھا، یعنی یہی کوئی آٹھ سو سال پرانا واقعہ ہے۔ ہم ان دونوں واقعات کو زمانہ قبل از تاریخ میں تصور کرتے آئے تھے اب تک ۔ چنگیز خان کو وہ سیزر اور سکندر اعظم سے بڑا فاتح مانتا ہے۔
  • ہلاکو خان چنگیز خان کا پوتا تھا اور امیر تیمور کا لگڑبگڑسگڑ دادا تھا جو خود بابرمرزا کا اسی قسم کا نانا یا دادا تھا۔
  • صلیبی جنگیں خود عیسائیوں نے شروع کیں اور صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ مغربی رومن ایمپائر نے مشرقی رومن ایمپائر یعنی قسطنظنیہ کے خلاف بھی صلیبی جنگیں کیں۔
  • یوروپی ممالک کی کالونائزیشن پالیسی سے ہزار سال پہلے ہندوستان نے مشرقی جزائرسری لنکا، ملائشیا، انڈونیشیا اور دیگر قریبی پر کالونیز قائم کیں۔ حملہ کر کے نہیں بلکہ تبلیغی اور تجارتی ذرائع استعمال کرکے۔
  • مارٹن لوتھر اور مارٹن لوتھر کنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک کالا تھا ایک گورا، ایک جرمن تھا ایک امریکن۔ ایک مذہبی رہنما تھا اور ایک سماجی، ایک عدم مساوات کا قائل اور دوسرا مساوات کا علم بردار
  • انگلستان کا شاہی خاندان جس کا آج بھی اتنا نام ہے وہ بس جمعہ جمعہ چار دن کی بات ہے کہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا جمع کر کے زبردستی تخت پر بٹھایا گیا تھا بذریعہ پارلیمنٹ۔ اس سے پہلے انگلینڈ کی بادشاہت کبھی کوئی چھین لیتا تھا کبھی کسی کے حوالے کردی جاتی تھی۔ کبھی جرمن تو کبھی فرنچ کبھی اسکاٹ انگلینڈ کا بادشاہ یا ملکہ بنائے جاتے یا بنتے رہے ہیں۔ اسی انگلینڈ میں پارلیمنٹ کی فوج نے اپنے ایک بادشاہ کی فوج کو شکست دے کر بادشاہ کا سرقلم کردیا تھا۔ اور موجودہ شاہی خاندان دراصل جرمن ہے۔
  • چین کے بارے میں رائے بہت مثبت ہے اگر چین نہرو کو اتنا ہی پیارا تھا تو آج لداخ میں پھڈے پتا نہیں کیوں ہورہے ہیں۔
کچھ سبق بھی اخذ کیے کہ قوموں اور ملکوں کے حالات اکثتر و بیشتر جوں کے توں ہی ہیں زیادہ تبدیلی نہیں آئی، جیسے کہ :

سلطنتیں، تہذیبیں اور قومیں حملہ آوروں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی اندرونی کمزوریوں اور خرابیوں کی وجہ سے تباہ ہوئیں۔ اکثر اپنے عوام کی حالت بہتر نہ بنانے کی وجہ سے، جن میں ہمیشہ فائدہ امیروں کے لیے اور نقصان غریبوں کے لیے تھا۔ جس کی بنا پر عوام کی اکثریت کو یا تو حملہ آور کے آنے اور حکومت بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑا اور وہ نئے حاکم کی اطاعت کرنے لگے یا پھر انہوں نے نئے حاکموں کو خوشی سے ویلکم کیا کیونکہ وہ پچھلوں سے تنگ آئے ہوئے تھے۔

بادشاہ خواہ وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے زیادہ تر نام کے ہی بادشاہ ہوتے تھے۔ اصل حاکمیت کنگ میکرز کی ہوتی تھی جو یا تومذہبی مافیا تھی جیسے پوپ یا پھر اشرافیہ جیسے گریک/ رومن نواب اور زمیندار یا ملٹری مافیا جو ہم خاندان غلاماں / ترکوں کو دیکھتے ہیں، بہت کم ایسا تھا کہ عوام نے کسی کو بادشاہ یا حاکم بنایا ہو۔ لہذہ حکم اور قانون بھی انہی مافیاز کا چلتا تھا۔
ایک آدھ انقلاب کے سوا عوام نے بس دعاوں پر ہی بھروسہ کیا ہے خود کچھ نہیں کیا لہذہ ان کی حالت بھی نہیں بدلی، جہاں انہوں نے خود کوشش کی وہاں ان کے حالات بدل گئے ورنہ وہ بھی ہیں آرام سے، اور اللہ میاں کو کیا پڑی پھر ان کے حالات بدلنے کی۔

سماجی سطح پر دیکھیں تو ایک وقت تھا کہ کاغذ اور پرنٹنگ کا آغاز ایک انقلاب تھا اور اب کاغذ اور پرنٹنگ کا خاتمہ ایک اور انقلاب بن گیا ہے۔ صنعتی ترقی نے ایک جانب انسان کے لیے آسانیاں پیدا کیں اور اسی صنعتی ترقی نے دوسری جانب مہلک ہتھیاروں اور دولت کے ارتکاز کی صورت انسان کی زندگی مشکل بنا دی۔ مشین انسان کی خادم کے طور ایجاد ہوئیں اورپھر انسان پر حکومت کرنے لگیں۔ یہی حال کمپیوٹرز کا ہوا ہے۔

حیرت انگیز طور پر تاریخ بیان کرتے ہوئے نہرو نے کہیں بھی حمورابی کا تذکرہ نہیں کیا۔ خیر ہمیں کیا، ہمیں تو ابھی ریسرچ کرنی ہے کہ منگولیا میں چنگیز خان کے آبائی گاوں کا نام قراقرم ہے تو قراقرم رینج کا اس سے کیا تعلق ہے۔ پلس سلطان محمد تغلق کی اتنی برائیاں کیوں کی گئی ہیں کتا ب میں۔

⏳⌛⌚⌚⏰⌚⌚⏳⌛