ہم نے جب سے ہوش سنبھالا تھا عمر چچا ہمارے گھر کا ایک فرد تھے۔ گو کہ ان کا گھر ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا لیکن ہر کام کے لیے ہر وقت وہ ہمارے گھر حاضر رہتے۔ ابو سے عمر میں چھوٹے تھے اور انہیں ہمیشہ بھائی جان کہہ کر بلاتے تھے۔ اسی نسبت سے ہم بہن بھائی انہیں عمرچچا کہتے تھے۔
ہمارا بچپن ان کے کندھے سے لٹک کر ضدیں کرتے گزرا۔ اپنے سگے چچا سے بھی ہم نے اتنی فرمائیشیں نہیں کی ہونگی جتنی عمر چچا نے پوری کی ہونگی۔ یہ جو ہم اتنی ساری جگہوں کی تصاویر لگا رہے ہیں گورکھ رنگ تھیم میں۔ ان سب آوارگیوں کی شروعات عمر چچا کے ساتھ ہی ہوئی تھیں۔ سیر و تفریح کی جو اولین یادداشتیں ہیں ان میں سب سے پہلی تو ابو کی ففٹی کی ڈگی میں بیٹھ کر کیماڑی کی سیر کی ہے۔ اس کے بعد جتنی بھی ابتدائی فیملی پکنکس یاد ہیں۔ عمر چچا ان میں ایک ناگزیر پارٹنر ہوتے تھے۔
چچا نے کبھی بےروزگاری کی زندگی نہیں گزاری۔ زیادہ تر ٹیکسی یا رکشہ چلاتے تھے۔ تو ہماری ابتدائی پکنکیں ان کے رکشے یا ٹیکسی میں ہی ہوتی تھیں۔ اگر اس وقت وہ کوئی اور کام کر رہے ہوتے تھے تو کسی نہ کسی دوست سے رکشہ یا ٹیکسی مانگ لاتے پک نک کے لیے۔ پھر جب ابو پارٹ ٹائم رکشہ چلاتے تھے تو بھی پکنک پر عمر چچا ہمارے ساتھ ضرور ہوتے تھے۔ پکنک بولے تو ٹوور
مجھے یاد ہے بند مراد خان کا پہلا ٹوور۔ اس وقت حب ندی میں پانی ہوتا تھا اور ایک جگہ سے ہم نے ندی کراس کر کے ایک پارک نما جگہ پر ڈیرا لگایا تھا۔ وہ ندی میں نے عمر چچا کا ہاتھ تھام کر ڈرتے ڈرتے کراس کی تھی۔ کہ کہیں میں پانی میں بہہ نہ جاوں۔ مجھے آج بھی اپنے ہاتھ پر عمر چچا کے ہاتھ کی مضبوط گرفت یاد ہے۔
پہلی بار حب ڈیم کی سیر پر بھی ہم پشتے سے پتھروں پر چل کر نیچے پانی تک گئے تھے۔ اور پتھر45 ڈگری پر ڈھلوان کی صورت اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے کہ بندہ ان پر سے پھسل کر سیدھا ڈیم کے پانی میں جاگرے۔ اس ڈھلوان کو بھی عمر چچا کا ہاتھ تھام کر اتری تھی۔ بلکہ انہوں نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے نیچے تک پہنچایا تھا۔
ایسے ہی ٹھٹہ، مکلی، کینجھر، ہالے جی اور اس طرف کے کتنے ہی ٹرپس ہم نے عمر چچا کے ساتھ کیے ہونگے۔ اس وقت نہ کیمرے اتنے عام تھے نہ ہر موقع کی تصاویر لینا اتنا وبائی تھا۔ اس لیے ان کی تصاویر بھی نہیں کوئی خاص ۔
آخری سالوں میں عمر چچا بوجوہ سخی داتار ضلع ٹھٹھہ میں ایک سندھی فیملی کے ساتھ ان کی اوطاق میں رہنے لگے۔ راج مستری کا کام انہیں بخوبی آتا تھا۔ ہمارے گھر کی ابتدائی تعمیرات میں ہمارے نانا کے علاوہ ان کا بڑا حصہ تھا۔ اس وقت سخی داتار اور پیر پٹھو کے مزارات زیر تعمیر تھے۔ عمر چچا دن بھر محنت مزدوری کرتے اور رات میں اوطاق میں سو رہتے۔
جب میری جاب لگی تو کوئی ایک دو سال بعد ہم نے ایک سیکنڈ ہینڈ ہائی روف لی۔ یہ ہمارے پورے ننھیال اور دھدھیال میں بائک کے بعد پہلی گاڑی تھی۔ ہم سارے قدرتی طور پر بہت ایکسائیٹڈ تھے۔ جب ابو اور بھائی کی ڈرائیونگ بہتر ہوئی تو ہم نے پہلا پروگرام سخی داتار جانے کا بنایا کہ اس جمعرات ہم عمر چچا کو سرپرائز دینے چلیں گے۔
اس وقت جمعے کی چھٹی ہوتی تھی۔ دو دن کا پروگرام ڈن کیا۔کیونکہ وہ پروفیشنل ڈرائیور تھے اور آگے ٹرپس پر انہوں نے ہی گاڑی چلانی تھی تو ان سے زیادہ ہماری گاڑی دیکھ کراور کون خوش ہوتا بھلا۔ لیکن یہ خوشی ان کی اور ہماری قسمت میں نہیں تھی۔
بدھ کے روز صبح صبح ابو کے پاس ٹھٹھہ سے فون آیا کہ عمر کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس نے ایک آپ کا ہی نمبر دیا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہوجائے تو اس نمبر پر بھائی جان کو اطلاع کردینا۔ تو آپ آجاو۔ ابو گئے اور باہمی مشورے سے ان کی وہیں مزار کے قدموں میں ہی تدفین کر دی گئی۔
جن کے ساتھ وہ رہتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ رات کو اس کے پیٹ میں بہت درد تھا، اسپتال وہاں سے کافی دور تھا اور اس وقت وہاں ڈاکٹر بھی نہیں ہوتا۔ وہ درد سے چلاتا رہا کافی دیر پھر خاموش ہوکر سوگیا۔ ہم سمجھے آرام آگیا۔ صبح دیکھا تو اس کا انتقال ہوچکا تھا تو ہم نے آپ کو فون کردیا۔
ہمارا اندازہ ہے کہ انہیں اپینڈکس کی تکلیف ہوئی تھی۔ اورفوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث ان کی موت ہوئی۔ ہم سال میں دو تین بار سخی داتار ہوآتے اور ان کی قبر پر فاتحہ پڑھ آتے ، پھر مزار کی توسیع ہوئی اور ان کی قبر مزار برد ہوگئی۔ اب ان کا کوئی نشان، کوئی نام لیوا، کوئی وارث نہیں۔ ٹی کے سی تھیم کے لیے پرانی تصاویر ڈھونڈتے ابو کے لیپ ٹاپ سے یہ تصویر نکل آئی اور کتنی ہی یادوں کے دریچے کھول گئی۔
اللہ تعالیٰ عمر چچا کو غریق رحمت کریں۔ آمین
فوٹو ایڈٹنگ کریڈٹ: محسن رضا