Showing posts with label Religion. Show all posts
Showing posts with label Religion. Show all posts

Tuesday, January 20, 2015

An Open Letter to Editor Charlie Hebdo


چارلی ہیبڈو کے خاکوں کے پس منظر میں ایک ادنٰی سی کوشش۔
کسی قسم کی جذباتیت کو الگ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہولوکاسٹ سے بھی کنی کترا کے گزری ہوں کیوں کہ اگر کل کلاں  کو ہولاکاسٹ پر کھلے عام تنقید کا حق مل جائے تو کیا ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پرشادیانے بجائیں گے ، ہر گز نہیں ، تو ہولوکاسٹ ہمارا مسئلہ نہیں۔

بنیادی خیال یہ ہے کہ کسی کو قتل کردینے سے یا اپنی بسیں اور بنک جلانے سے یہ واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھیں گے۔ ہم مسلمانوں کو اپنی آواز اور اپنے جذبات ان اداروں تک طریقے سے پہنچانے چاہئیں جو مسلسل اس قسم کی حرکتیں کر رہیں ہیں۔ 

جو لوگ اس کو مغربی پریس کو ای میل کرنا چاہیں یا اپنی وال پہ پوسٹ کرنا چاہیں ، بسم اللہ [چارلی ہیبڈو کے ای میل کی تلاش میں ہوں، ویب سائیٹ حکومت آنٹی نے بند کر رکھی ہے]
ایک ہد ہد ایک قطرہ پانی سے آگ تو نہیں بجھا سکتا لیکن اسے آگ بجھانے والوں میں گنا جائے گا ،آگ لگانے اور بھڑکانے والوں میں نہیں :)



Mr. Editor,

Charlie Hebdo

Saturday, July 26, 2014

حرام یا ناپاک کیوں: ایک خیال

بہت ساری چیزیں اور عمل اللہ تعالیٰ نے حرام اور ناپاک قرار دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں تو وہی جانے مگر عمومی طور پر وہ اشیاء جو انسانی صحت کے لیے نقصاندہ ہیں وہ ناپاک قرار دی گئی ہیں۔ جیسے خون ، فضلات، اور دیگر انسانی اخراجات میں جراثیم اور وائرس پائے جاتے ہیں لہذہ انہیں ناپاک قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اگر انسان کے جسم پر یا لباس پر لگا ہو تو وہ پاک نہیں رہتا، وضو کے بعد لگ جائے تو وضو ساقط ہو جاتا ہے، اسے فوری طور پر پاک ہونا لازمی ہے۔ ان پابندیوں کا مقصد بظاہر یہی ہے کہ بندہ جراثیم اور وائرس وغیرہ سے بچا رہے۔

Saturday, September 21, 2013

Qura'an: What is inside

آجکل میں مولانا مودودی کا اردو ترجمہ٫ قران بطور ایک کتاب پڑھ رہی ہوں۔ زیر نظر تبصرہ محض ایک ایسا ہی تبصرہ ہے جیسے ایک کتاب کو پڑھ کر اسکے بارے میں تبصرہ کیا جاتا ہے۔

قران مجید کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی اس تمام جہان کا خالق ہے، وہی مقتدر ہےوہی تمام عبادتوں کا حقدار ہے۔ لہذہ صرف اور صرف اسکی بات سنی، مانی اور عمل کی جائے۔ اسکے بتائے ہوئے رستے پر چلا جائے، جو اسکے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا، کامیاب ہوگا، جو بغاوت کرے گا سزا کا مستحق ہوگا۔ ہر گناہ قابل معافی ہے، سوائے شرک کے۔

Saturday, December 8, 2012

ہم اور ہمارا اسلام

خواہ دنیا پاکستانیوں کو بنیاد پرست کہے، یا ساری مذہبی تنظیمیں ہمیں بے دین سمجھتے ہوئے، بنیاد پرست بنانے کی کوشش کرتی رہیں، لیکن تین سال سعودی، مصری اور دیگر عرب مسلمانوں کے ساتھ رہ کر اندازہ ہوا کہ ہم عام پاکستانی ان نام نہاد مسلمانوں سے بہتر مسلمان ہیں، ہم لوگ اس مغالطے میں رہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب تھے تو عرب دین اسلام میں پی ایچ ڈی ہیں جبکہ ہم پرائمری اسکول میں، اسی غلط فہمی میں ہم عموماً "رہنمائی" کے لیے سعودی عرب کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری عام زندگی بہت حد تک اسلامی شعائر کے دائرے میں ہے، ہم دین میں ان سے آگے اورمنافقت میں ان سے پیچھے ہیں۔

یقینا ہم میں شرابی کبابی بھی موجود ہیں لیکن ایک عام اوسط پاکستانی رزق کی عزت کرتا ہے، کھانا کھانے سے متعلق چھوٹی چھوٹی سنتوں کا خیال کرتا ہے، ایک عام پاکستانی خاتون اپنے محرموں کے سامنے بھی ستر کا خیال رکھتی ہے، جامے سے باہر نہیں ہوتی، 'لیڈیز اونلی' محفل میں بھی ان کا لباس اخلاقی حدود میں رہتا ہے،عربی خواتین خصوصا" سعودی خواتین کا لباس، اللہ کی پناہ۔ سعودی حکومت کی سخت شرعی پالیسی نے سعودیوں کوضرور کنٹرول کیا ہے، ان کے اخلاق و خصائل کونہیں، سعودی عرب میں جو کچھ نہ کرسکیں وہ کہیں اور کر لیا، یہ اسلام تو نہ ہوا، سراسر منافقت ہوئی۔

عام پاکستانی مرد بھی لڑکیوں کو تاڑنے تک ہی محدود رہتا ہے، اگر کہیں ریڈ لائیٹ ایریا ہے بھی تو سارے کے سارے وہیں نہیں پائے جاتے، جو جاتے ہیں نظر بچا کر ہی جاتے ہیں، سعودی مرد حضرات مصر آتے ہی 'تفریح طبع' کے لئے ہیں، زیادہ تر پرانے قاہرہ کے خاص محلوں میں چکراتے پائے جاتے ہیں، جو ذرا شریف ہوتے ہیں وہ کسی مصری خاتون سے ہفتے پندرہ دن کے لیے نکاح کر لیتے ہیں، پندرہ دن بعد طلاق دی اور یہ جا اور وہ جا۔ مزے کے مزے، ضمیر بھی مطمعین رہتا ہے، آخر نکاح کرتے ہیں، گناہ نہیں کرتے۔ مصر کی غربت نےغریب والدین کو بیٹیوں کا دلال بنا دیا ہے، مخصوص علاقےجہاں غربت زیادہ ہے اس قسم کی کاغذی شادیوں کے لیے مشہور ہیں، امیر عرب بوڑھے کمسن لڑکیوں سے چند روزہ شادی کی ٹھیک ٹھاک قیمت دے دیتے ہیں، والدین کی قسمت سنور جاتی ہے اور لڑکی . . . لڑکیوں کو قسمت کا کیا کرنا ہے۔ جب 'صراط مستقیم' پر چلنے والوں کا یہ حال ہے تو باقی عرب ممالک کے شہریوں کا آپ خود اندازہ کرلیں۔ 

یہ تو ہوئی معاشرت، عبادت کی بھی سن لیں، نماز عربوں کی عادت میں شامل ہے، اسکا پرچار نہیں کرتے، کسی بھی جگہ دو بندے بھی ہونگے تو جماعت کرلیں گے، اچھی بات ہے، لیکن وضو پورا نہیں کرتے،میرے ساتھ ایک صاحبہ بازار میں تھیں، اذان ہوئی تو ہم قریب میں مسجد میں چلے گئے، میں نے عادت کے مطابق وضو کیا، انھوں نے صرف ہاتھ اور چہرہ، چہرہ بھی ایسے کہ سکارف تک نم نہ ہوا، موزوں پر مسح کر لیا، نہ گردن، نہ کان، نہ بال، پھر حیرت سے فرمایا، تم نے گردن، بال اور کان کا بھی مسح کیا ہے، میں نے پوچھا تم نے کیوں نہیں کیا، بولیں، کوئی کرتا ہے، کوئی نہیں کرتا۔ ساری نمازیں پڑھتے ہیں، پر پوری نماز نہیں پڑھتے، صرف فرض، نفل چھوڑیں سنتیں بھی نہیں۔

شب معراج، شب برات کا کچھ پتہ نہیں چلتا ، نہ عبادت نہ روزہ۔ ۔البتہ رمضان بہت ہی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ شب قدر کے آخری عشرے میں روز انہ شبینہ عبادت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے، اس خصوصی نماز کو تہجد کہا جاتا ہے۔ معمولی سی رونق عید میلادالنبی پر ہوتی ہے، محرم پر وہ بھی نہیں نظر آتی.

پردہ نشینوں کا کچھ حال تو اوپر بیان ہے، باقی عرب خواتین کا حال کچھ اس طرح ہے، سوریا شام کی خواتین یورپین ہوتی ہیں، سودانی خواتین پاکستانی ہوتی ہیں، مصری خواتین مصری ہوتی ہیں یعنی اپنی طرح کی ۔ اسی سے نوے فیصد مصری خواتین سکارف لیتی ہیں، انکا اسلامی لباس سکارف اور اسکن ٹا ئیٹ جینز اور ٹاپ پر مشتمل ہوتا ہے، انکے خیال میں پردہ جلد ڈھکنے کا نام ہے جسم ڈھکنے کا نہیں، لہذہ حضرات بآسانی تمام نشیب و فراز معائنہ فرماتے رہتے ہیں

Sunday, November 25, 2012

ڈنڈے کے زور پر عقیدوں کی درستگی

آجکل عقیدوں کی درستگی پر بہت زور ہے، ہر شخص لٹھ لے کر دوسروں کے عقیدے درست کر وا رہا ہے۔ "اگر مسلمان ہو تو اس پوسٹ کو لائک کرو" ۔ 

میرا عقیدہ جو بھی ہو، وہ میرے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اگر میں درست ہوں تو مجھے کوئی ڈر نہیں، اگر تم درست ہو تو تمہیں فکر نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ ہم دونوں کو اللہ کے منصف ہونے پر یقین ہے نا، تو وہ سزا دے گا مجھے یا جزا ، یہ تمھارا concern نہیں ہونا چاہئے۔ 

جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا برائی کو ہاتھ سے روکو، نہیں تو زبان سے، ورنہ دل میں برا سمجھو، اور یہ سب سے کمزور ایمان کی نشانی ہے، اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تو کہا تھا کہ دین میں جبر نہیں ہے، اس نے یہ بھی تو کہا تھا کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈال دے اسے چھوڑ دو، اور جس پر تمہارا دل مطمعین ہو اسے اپنا لو۔ تو ہم صرف لوگوں کو صحیح اور غلط بتا سکتے ہیں سیدھا راستہ دکھا سکتے ہیں لیکن زبردستی اس پر چلا نہیں سکتے۔