Friday, September 16, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ پنجم)

جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے


اورپھر جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائ ویسے ہی اچانک سے ایک پھولوں بھری راہ گزر سامنے آگئی، حد نظر تک گلابی پھول ہی پھول۔ رہ نما نے بتایا کہ دور مشرف میں ہی اس پودے کی باقاعدہ کاشت کی گئی تھی ، پنیری لگائی گئی تھی اور وادی میں متعدد جگہوں پر یہ جنگلی گلاب نما پودا کاشت کیا گیا تھا ۔ جو اب بھی کہیں کہیں وادی کے حسن میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق وادی میں زیتون کی کاشت بھی کئ گئی تھی لیکن ٹمبر مافیا زیتون کے درختوں کو غیر قانونی طور پر اسمگل کر رہی ہے۔ ہمارے راستے میں بھی ایک ٹویوٹا ہائی لکس پر زیتون کی لکڑیاں لادی جارہی تھیں۔ 
فوٹوکریڈٹ: مصنف
جیسے منیر نیازی کو دریا کے پار ایک اور دریا کا سامنا تھا، اسی طرح ہمارے سامنے بھی ایک کے بعد ایک پہاڑی سلسلہ تھا ، ایک سلسلے کو پار کرتے تو دوسرے کے آثار نظر آنا شروع ہوجاتے جو دھیرے دھیرے قریب آتا جاتا، بظاہر سڑک کے سامنے ایک پہاڑ ایسے آجاتا کہ لگتا تھا کہ ڈیڈ اینڈ ہے، آگے جانے کی کوئی راہ نہیں لیکن پھر راستہ لہراتا بل کھاتا کہیں نہ کہیں سے پہاڑ کے گرد سانپ کی طرح لپٹا ہوا اوپر چڑھنا شروع ہوجاتا اور جیپ اپنی بوتھی آسمان کی طرف اٹھا کر رحم کی اپیل شروع کردیتی۔ اسی طرح ایک ٹاپ پر پہنچے تو نظروں کے سامنے ایک خوبصورت وادی بچھی تھی وادئِ استور کا منی ماڈل۔

"اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو"
ویسے ہی پہاڑ کے پہلو بہ پہلو ایک سمارٹ سا ٹریک جس پر جیپ کہیں کہیں تین پہیوں پر بھی اٹھکیلیاں کرجاتی تھی، ٹریک اور ارد گرد کے ٹیلوں سے لگتا تھا کہ شب گزشتہ کچھ  ابرسا برسا ہے، ٹریک کچھ نم نم سا تھا، اگرچہ پہاڑ کی اونچائی" روڈ ٹو استور فل آف چکورز "سے کم تھی اور نیچے کئی سو میٹر نہ سہی کئی میٹر کی گہرائی میں دریائے مولہ عین بیچوں بیچ سستی سے بہتا تھا۔ پچھلے برس شمال نہ جاسکنے کا دکھ اس وادی اور ٹریک کو دیکھ کر کچھ کچھ کم ہوگیا۔

ایسی وادیوں میں فوٹو گرافروں کا بس نہیں چلتا کہ پیدل سفر اختیار کرلیں اور ہر موڑ پر ، ہر منظر کو کیمرے میں قید کرتے چلے جائیں یا پھر گاڑی کے اوپر ایک مسلسل کیمرہ فٹ کرلیں دو چار ہزار جی بی میموری والا۔ اور اس ٹریک پر تو ایسے ایسے منظر تھے کہ بارہا دل مچل اٹھا ۔ آخر کار ایک مناسب خوش منظر میں پچھلی جیپوں کے نظروں سے اوجھل ہوجانے کی دہائی دے کر جیپ رکوالی گئی۔ حسب توفیق چہار اطراف کے مناظر کیمروں میں قید کئے گئے۔


تھوڑے بہت پوز بھی مارے گئے۔ اچانک ایک پتھر پر نظر پڑی تو اس میں کچھ کچھ ملاوٹ نظر آئی۔ مزید نظریں دوڑائیں تو دائیں بائیں سمیت سارے پہاڑ ہی دوغلے نظر آئے۔ ہماری رائے میں یہ کوئی خام دھات تھی جبکہ ہماری گرل فرینڈ کی رائے میں یہ کسی پیرا نارمل مخلوق کی کوئی مشکوک ایکٹویٹی تھی ، تھوڑا لکھے کو بہت سمجھیں ، مزید سمجھنے کی ضد نہ کریں ۔ ہم سفر کی کوئی رائے نہ تھی وہ ہم دونوں کی بحث سے محظوظ ہوتے رہے اور جس کا پلڑا بھاری ہوتا نظر آتا، اسی کے پلڑے میں مزید وزن انڈیل دیتے۔

معدنیاتی خزانے
دریں اثناء دور سے دھواں سا اٹھتا دکھائی دینے لگا ، یہ دراصل دھول تھی جو ہمارے پیچھے آنے والی جیپوں کی آمد کے آثار تھے، ان کو قریب آتا دیکھ کر ڈرائیور نے جلدی مچا دی۔ دوبارہ سے جیپ میں فٹ ہوئے جو تیز دھوپ میں کھڑے کھڑے تندور بن چکی تھی۔ تندور آگے روانہ ہوا اور ہم ایک جنگلی گلابوں سے پھولوں سے بھری ایک وادی میں اترے، راستے کے دونوں اطراف گلابی پھولوں کے گچھے جیسے ہمارے استقبال کو چلے آتے تھے۔ پھولوں سے معانقہ و مصحافہ کر کے آگے چلے تو ڈرائیور نے ہماری جیپ دریا میں ہی ڈال دی۔ اب تک ہم پانی کراس کرتے آرہے تھے لیکن جانے کیا ہوا کہ ڈرائیور کس غلط فہمی میں تھا کہ دریا کے بیچ جیپ چلانی شروع کردی۔ دونوں جانب قد آدم گھاس تھی اور درمیان میں جیپ گوڈے گوڈے سے بھی زیادہ پانی میں چلی چلی جارہی تھی اور ہم سوچ رہےتھے کہ اگر آگے مزید گہرا پانی ہوا تو ہمارا وہ حال ہونا ہے جس کی آرزو چچا غالب نے کبھی کی تھی کہ

نہ کہیں جنازہ اٹھتا ، نہ کہیں مزار ہوتا

یہاں جو ہم ڈوب مرتے تو کس نے ہمارے گھر خبر پہنچانی تھی۔ جنازے اور مزار کا تو سوال بعد میں آتا۔ لیکن شکر ہے کہ تقریباً 50 گز کے بعد دریا ہی اپنا منہ لے کے کسی اور سمت چل دیا۔ پتا لگا کہ راستہ استعمال کے باعث گہرا ہوتا گیا اور دریا کے دھارے کی نسبت نیچا ہوگیا تو دریا نے سوچا ایویں اتنی خواری کرنے کی کیا ضرورت ہے، اسی پر چل پڑتے ہیں۔ اور پھر جہاں اسے یاد آیا کہ "اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے" وہاں سے مڑ اپنی راہ لی۔ گویا ہم تو اپنے راستے چل رہے تھے لیکن دریا خود ہی ہمارا ہمراہی ہوگیا تھا کچھ دیر کے لیے۔ صد شکر ورنہ ہم یہ سفر نامہ لکھنے کے لیے موجود نہ ہوتے۔

حصہ چہارم پڑھئے۔

حصہ ششم پڑھئے۔
------------------------------------------------

تصاویر : بہ موبائل و سائبرشاٹ از مصنف

خصوصی شکریہ جناب  ماجد حسین صاحب برائے یادداشت و اضافہ جات

پاکستان میں سیاحت کے حالات کا ایک جائزہ  پڑھئیے۔

سیاحت کے شعبے میں سرکاری اور نجی سیکٹر کا احوال جانئیے۔

بلوچستان کے بارے میں مزید جانئیے ۔ ۔ ۔