Saturday, August 9, 2014

فرمائشی سفرنامہ: پارٹ تھری

رما موٹیل میں ہی جانے کتنے دنوں کے بعد ٹی وی اور خبریں دیکھنا نصیب ہوئیں اور یہ پتہ چلا کہ مذاق رات ختم ہوگئے ہیں اور اب آپریشن کلین اپ ہونے والا ہے نواز شریف قوم سے خطاب کر رہے تھے ۔ یہاں جیو تیز کی شکل بھی نظر آئی۔ آنکھوں میں ٹھنڈ پڑ گئی۔
دی کلر ماونٹین۔ قراقرم ہائی وے

قراقرم ہائی وے پر جہاں نانگا پربت کلر ماونٹین آپکے لیفٹ پر کا بورڈ لگا ہے ، اسکے بلکل سامنے سڑک کے اس پار ایک ننھا منا سا ریسٹورینٹ ہے جہاں مسافروں کی تواضع کھانے پانی کے علاوہ مفت شہتوت سے کی جاتی ہے۔ چند دکانوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ جس کے درمیان میں ایک بڑا سا شہتوت کا درخت جو اس وقت پھلوں سے لدا ہوا تھا، اس ریسٹورینٹ کی ایک اور خاصیت، کھانے کے ساتھ اچار وافر مقدار میں دیا جاتا تھا۔ یہ وہ نعمت تھی جو ہم ساتھ لے جانا بھول گئے تھے۔ اور ہائیٹ کی وجہ سے جب کسی کا کھانا کھانے کو دل نہیں کرتا تھا تو اچار کی یاد آتی تھی۔ شمال کے تقریباً تمام ریسٹورینٹس اور موٹیلز میں چکن کڑاہی ایک کامن ڈش ہے۔ دال اناج دستیاب نہ ہونے کا ریزن یہ ہے کہ اونچائی کی وجہ سے دال گلتی نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ جہاں دال نہیں گلتی وہاں مرغی کیسے گل جاتی ہے۔ 

رما سے واپسی پر پھر وہی راستہ لیکن سفر مختلف تھا۔ ایک ہی راستے پر جانے کا سفر الگ اور آنے کا مختلف ہوتا ہے، جانے کے سفر میں راستہ نیا ہوتا ہے، آپ راستے کی ہر چیز کو ایکسپلور کر رہے ہوتے ہیں۔ ان دیکھے کو دیکھنے کا تجسس ہوتا ہے، جبکہ واپسی کے سفر میں دیکھے ہوئے راستے اور مناظر کو آپ دوسرے زاویے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور اس حسرت کے ساتھ بھی کہ شائد اس راستے پر دوبارہ قدم نہ پڑیں گے تو جی بھر کے آنکھوں میں بسا لیں اور کیمرے میں پھنسا لیں۔

آتے ہوئے رما – استور جیپ ٹریک کو جو خوبصورتی اور ہریالی اندھیرے کی نظر ہوگئی تھی واپسی کے سفر میں ابتداء میں اس سے لطف اندوز ہوئے، استور شہر کے بعد پھر سے تنگ گھاٹی میں دریائے استور کی ہمراہی کی۔ گاڑی میں سفر کے دوران آپ کے سامنے اتنی تیزی سے ایک کے بعد ایک فوٹو جینک مناظر آتے ہیں کہ جب تک آپ کیمرہ سنبھالیں منظر بدل چکا ہوتا ہے۔ اور اگر آپ کو کارنر سیٹ نہ ملی ہو۔ یا غلط جانب ملی ہو تو بہتر ہے آپ سو جائیں ۔ یہ نصیحت نہیں بلکہ سبق ہے جو ہم نے اپنے ایک ہم سفر سے ان کے سونے کے دوران سیکھا۔ لیکن سفر میں سونے کے دوران ضرورت سے زیادہ جھومنے اور حد ادب کراس کرنے سے پرہیز کریں۔

اس سفر میں یہ بھی اندازہ ہوا کہ بندے کو تھوڑا سا خود غرض ہونا چاہئے یا وقتی طور پر ہوجانا چاہئے۔ شرافت سے ضرورت سے زیادہ مستفید ہونے کی صورت میں آپ کو ہمیشہ غلط جانب والے کارنر کی سیٹ ملے گی۔ ہمیشہ اضافی میٹرس پر زمین پر سونا پڑے گا۔ اور اپنی ہائیکنگ اسٹک سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔ شرافت اچھی چیز ہے لیکن خواتین اس سے ضرورت سے زیادہ فائدہ کشید کر لیتی ہیں۔ جبکہ تھوڑی سی خود غرضی سے آپ ہمیشہ اپنی پسند کی سیٹ ،پسند یدہ ہمسفر اور ٹھنڈی ہواوں کے ساتھ سفر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ چلتی گاڑی میں حاضرین کے درمیان ایک غیر اعلانیہ تصویر کشی کا مقابلہ جاری تھا جس کی خبر اس وقت ہوتی تھی جب کوئی فوٹوگرافر اپنے من چاہے منظر کی تصویر لینے میں ناکام ہوجاتا اور باقی پبلک پیچھے سے ہو ہو ہا ہا مچاتی ۔ 

دریائے استور جہاں شیر دریا سے ملتا ہے اس سے کچھ آگے پل کراس کر کے ہم قراقرم ہائی وے پر چڑھے اور شہتوت فری اور اچار والے ریسٹورینٹ کے سامنے سے رکے بغیر آگے چل دیے کیونکہ ہم رما سے ناشتہ کر کے چلے تھے آگے ایک بورڈ نے اطلاع دی کے چند گز آگے دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں کا سنگم پوائنٹ ہے۔ پبلک نے ویو پوائنٹ پر چڑھائی کردی اور یادگار کے طور پر انفرادی ، گروپ اور خالی خولی پہاڑوں کی تصاویر کھینچی گئیں۔ 
تین عظیم سلسلہ ہائے کوہ کا مقام اتصال
گروپ میں کچھ لوگ اس قدر بد قسمت اور کور ذوق تھے کہ بہت سے قابل دید مقامات پر بھی گاڑی سے اترنا گناہ کبیرہ گردانتے تھے، یہ بھی ایک ایسا ہی مقام تھا لہذہ جتنا بھی گروپ میسر آ سکا اس کی گروپ پکچرز بنائی گئیں۔ اس پہاڑی سنگم سے کچھ ادھر یا کچھ ادھر ایک اور مقام پر زمین کی یوریشئین اور انڈین پلیٹوں کا مقام اتصال ہے، جس کی نشاندہی ایک بورڈ کر رہا تھا لیکن کوئی ایسی یادگار وغیرہ نظر نہیں آئی جیسی پہاڑّوں کے سنگم کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہ ہم سب کا حسنِ نا بینا بھی ہو سکتا ہے جو باتوں کے درمیان کسی ایسی نشانی کو صرف نظر کر گیا ہو۔ یا انہی پلیٹوں کی کارستانی [زلزلوں] کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔

گلگت

ہماری اگلی منزل گلگت تھی گلگت ہمارے پلان میں شامل نہیں تھا۔ لیکن چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ہمیں گلگت ٹچ کرنا پڑا۔ جیسے جیسے گلگت قریب آتا جا رہا تھا گرمی بڑھتی جا رہی تھی۔ یہ غالباً ہمارے گلگتی دوستوں کی گرم جوشی کے باعث تھا۔ ہمارے یونی ورسٹی کے زمانے کے چند گلگتی ہم جماعت ہمیشہ ہمیں گلگت آنے اور گلگت گھمانے کی دعوت دیتے تھے۔ جب گلگت ہمارے پروگرام میں شامل بھی نہیں تھا ہم نے راستے میں جہاں بھی موبائل کے سگنل پکڑ میں آئے ایک سندیسہ ہواوں کے سپرد کردیا کہ "ہم شمالی علاقوں میں بھٹک رہے ہیں تم سب کہاں ہوتے ہو اور ہم تم سے کہاں مل سکتے ہیں " اور بھول گئے۔ لیکن ان پیارے لوگوں نے نہ صرف سندیسہ پکڑ لیا بلکہ ہمارا پلہ بھی پکڑ لیا ۔ اب راستے میں جہاں جہاں بھی سگنل آتے ایک سندیسہ موصول ہوتا ، " آپا آپ کب آرہی ہیں"، "آپا آپ کہاں ٹھہریں گی"، " آپ گلگت میں کتنے دن رکو گی" ہم اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے اور باتوں باتوںمیں دریافت کرنے کی کوشش کرتے کہ کیا ہم گلگت ٹچ کریں گے، کیا ہم وہاں کچھ دیر رک سکیں گے، لیکن مایوس ہوتے [ ہمارا جغرافیہ بہت شاندار ہے، اس لیے ہمیں گلگت ہمارے راستے میں آئے گا یا نہیں کچھ علم نہیں تھا ]۔

اب جب بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تو ہم اس ٹوہ میں کہ ہم کتنے وقت گلگت میں رہیں گے ۔ تاکہ ہم ان سے ملاقات کر سکیں۔ ہمارے یونی ورسٹی کی ایک بہت ہی با ادب، پر خلوص اور پیاری دوست سلطانہ کی طرف سے کھلی دعوت تھی کہ ہم جتنے بھی بندے ہیں اس کے گھر ٹھہریں جتنے دن چاہیں ۔ ۔ لیکن ہماری پہلے سے پی ٹی ڈی سی گلگت میں بکنگ ہو چکی تھی ، نہ ہی ہمیں اندازہ تھا کہ ہم گلگت میں کتنے روز ٹھہریں گے اور ہمارا قیام سلطانہ کے گھر سے کتنے فاصلے پر ہوگا ۔ جس دن ہم گلگت پہنچے سلطانہ اپنے آفس کی میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد کوچ کر چکی تھی پر اس نے اپنی آپا کی میزبانی میں کوئی کثرنہ چھوڑی۔ گلگت میں موجود تقریباً سب ہی ساتھیوں کو فون کھڑکا ڈالے کوئی گلگت میں تھا ، کوئی اسلام آباد گیا ہوا تھا اور کوئی فیلڈ وزٹ پر ۔۔ 

گلگت میں داخل ہوتے ہی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے لیکن شائد پورے ایک ہفتے بعد ڈبل روڈ دیکھنے کو ملی تھی، جی ہاں جانے کی سڑک الگ اور آنے کی الگ۔ اور دونوں جانب ٹریفک بھی تھا ۔ ایک ہفتے بعد ہم ایک باقاعدہ شہر میں تھے۔ جو ہمارے بقیہ مقامات سفر کے مقابلے میں ایک" تہذیب یافتہ" شہر تھا کیوں کہ یہاں اکا دکا لوگ رانگ سائیڈ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔ الحمداللہ کراچی والوں کے اطمینان قلب و نظر کا پورا انتظام تھا۔ 

پی ٹی ڈی سی گلگت میں اپنے کمرے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ موبائل بج اٹھا اور ہماری گلگتی کلاس فیلو سلور جہاں ہماری خیریت اور حدود اربعہ دریافت کر رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ ہم سنبھل پاتے وہ ہمارے روم میں تھیں۔ ہماری پارٹی فریش ہو کر کہیں لیٹ لنچ کے موڈ میں تھی جو اب تقریباً ارلی ڈنر ہوا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں سلور کا مشورہ لیا گیا کہ کس ریسٹورینٹ پر کیا کچھ ملے گا۔ سلور کے مشورے پر کینوپی پہنچے جو پی ٹی ڈی سی سے بمشکل دومنٹ کے فاصلے پر ہے۔ بلکل ہی لب دریا، المنظر کی طرح دریا کے اتنے کنارے کہ ہاتھ بڑھا کر پانی چھولو، خود کشی کا موڈ بن جائے تو سیکنڈ اوپی نئین کا موقع ہی نہ دے۔ لیکن المنظر کے مقابلے میں دریائے گذر / غذر شیر دریا [شمالی علاقوں والا اصلی تے وڈا ] اور دریائے استور کا جڑواں بھائی ہے۔ تھوڑی دیر نظریں ٹکائیں تو سر چکرا جائے۔ دریا کی قربت اور غروب آفتاب کے باعث یہاں موسم بہت ہی شاندار تھا۔ پارٹی میں شامل بچہ پارٹی تہذیب میں آتے ہی بد تہذیب ہوکر بغاوت پر اتر آئی تھی اور ریگولر پارٹی ڈنر کرنے کے بجائے پزا کھانے پر مصر تھی۔ لیکن دریا کنارے اس مسحور کن ماحول کے زیر اثر فیصلہ ہوا کہ جا کر پزا کھانے کے بجائے لا کر پزا کھایا جائے۔ 
کینوپی، گلگت

اب تک ہم نے جہاں بھی کھانا کھایا تھا یہ ان سب میں سب سے خوبصورت مقام اور سب سے مزیدار ڈنر تھا۔ مکس سبزی اور رائیتہ کے تو کیا کہنے۔ میرے منہ میں تو ابھی بھی پانی آرہا ہے۔ اس بہترین شام کے لئے سلور جہاں اور سلطانہ کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ میں نے اور سلور نے مل کر اپنی یونی ورسٹی کے زمانوں اور دوستوں کو یاد کیا، میں نے سارے گلگتی دوستوں کا حال دریافت کیا اور سلور نے سارے کراچی والے ساتھیوں کی خیریت دریافت کی۔ سلطانہ فون پر مسلسل بول رہی تھی اور بیک وقت پر جوش اور اداس تھی۔ ہم جب یونی ورسٹی سے نکلے تھے تو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ میں کبھی گلگت میں ہوونگی ، سو وہ حق بجانب تھی ایکسائیٹڈ ہونے میں۔ لیکن اداس تھی کہ میں دو دن پہلے کیوں نہیں آئی جب وہ گلگت میں تھی، اس سے بھی ملاقات ہوجاتی۔ اور ہم دونوں نہیں جانتے تھے کہ دوبارہ کب ایسا ہوگا کہ وہ کراچی میں ہوگی یا میں دوبارہ گلگت میں ہوونگی۔

ہم نے رفیق کو یاد کیا جو مجھے ہمیشہ کہتا تھا کہ آپا بس آپ آ جاو ، آپ کو گلگت دکھانا میری ذمہ داری ہے، میں آپکو پورا گلگت گھماوں گا۔ اب میں وہاں تھی اور وہ وہاں کہیں بھی نہیں تھا ۔ اللہ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے، [آمین]۔ کھانا بہت مزیدار تھا اور بہت خوشگوار ماحول میں کھایا گیا تھا سو دیر تک وہیں خوش گپیاں چلتی رہیں۔ 

اگلی صبح ہمیں سوائے اسلام آباد جانے والے فلائیٹ کے جانے کا انتظار کرنے اور اس کے وقت پر اڑنے کے لیے دعا کرنے کے اور کوئی کام نہیں تھا۔ لیکن فلائیٹ اسلام آباد سے آتی تو جاتی ناں ۔ جانے والی پارٹی ائیر پورٹ کی ایک سیر کر کے واپس آگئی۔ پھر اسلام آباد سے کنفرمیشن کر کے کہ فلائیٹ چل پڑی ہے، پھر سوئے ائیر پورٹ چل دی۔ عینی مشاہدین الکرام کے مطابق عجب بد تمیز قسم کا ائیر پورٹ تھا شہر کے بلکل درمیان ، اتنا کہ سڑک سے جہاز ٹیک آف کرتا نظر آتا ہے۔ کچھ مشاہدین الکرام نے یہ منظر کیمرے میں قید بھی کیا لیکن ابھی تک "قیدیوں " کو آزادی نہیں ملی کہ غیر مشاہدین ِ نا اکرام بھی اس منظر سے فیض یاب ہوں۔ اس دوران "بقایاجات " ناشتے کے بعد مفت خوبانیوں سےحسب توفیق دل اور نظر بہلاتے رہے۔ 

ہنزہ :

ہنزہ بھی ہمارے پروگرام میں وقتاً فواقتاً داخل و خارج ہوتا رہا ۔ ۔ ۔

پارٹ ون کے لیے کلک کیجئے

پارٹ ٹو کے لیے کلک کیجئے

پاکستان میں سیاحت پر ایک نظر