Thursday, August 14, 2014

RIP Rationality

ترقی پذیر قوم ہونے کےناتے ہم جذباتیت پر یقین رکھتے ہیں اور ریشنالٹی یا ریشنلزم کا گزر ہمارے قریب سے نہیں ہوتا, اس جذباتیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اختلاف رائے کو دشمنی کا درجہ دیتےہیں اورہم خیالی دوستی اور اپنائیت قرار پاتی ہے.ہم میں سے ہر ایک کی دنیا میں یا تو فرشتے ہوتے ہیں یعنی اپنے جو ہر غلطی سے مبرا ہوتے ہیں یا پھر شیاطین جن میں کوئی خوبی ہو ہی نہیں سکتی. بس ہمارے دوستوں اور دشمنوں میں حضرت انسان کی کمی ہمیشہ رہتی ہے جو خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہے۔۔


یہ رویہ ہماری ذاتی زندگی سے لےکر ہماری سماجی, معاشی, اور سیاسی زندگی تک میں پایا جاتا ہے. میرے بھائی میں تو کوئی خرابی ہو ہی نہیں سکتی.وہ تو کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتا, اگرچہ اس کی ڈاکہ زنی کے دس گواہ بھی ہوں تو وہ سب جھوٹے ہیں میرے بھائی کے دشمن.

میرے دوست میں تو کوئی خامی ہو ہی نہیں سکتی, وہ تو حسد, لالچ اور اس قسم کی دوسری انسانی اور نفسانی خامیوں سے مبرا ہے.

میرا بھائی ملٹری میں ہے تو ساری ملٹری دودھ کی دھلی ہوئی ہے. میں بیوروکریسی کا حصہ ہوں تو بیوروکریسی میں سب نیک و مومن ہیں. 

میں اس سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں تو اس سیاسی جماعت کی ہر پالیسی درست ہے.خواہ اس جماعت کا سربراہ ایک ذہنی مریض ہی کیوں نہ ہو.

یہی جذباتیت اورirrational رویہ ہے جو آج فوج, میڈیا, اور چند سیاسی جماعتوں کے درمیان تیسری عالمی جنگ کا باعث ہے.