Wednesday, October 22, 2014

فن فیصلہ سازی

ہم فیصلہ سازی کے فن سے نا آشنا ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ بھی والدین پر چھوڑ دیاتھا کہ ہم پیدا ہوں یا نہ ہوں اور پیدا ہوں تو کب ہوں یا کتنی عمر میں ہوں، بچپن میں ہی پیدا ہوجائیں یا کچھ عقل آنے تک انتظار کرلیں۔ واپسی کے لیے بھی انتظار ہے کہ کب "کوئی" ہمیں واپس بلانے کا فیصلہ کرتا ہے۔

بچپن سے لے کر اب تک ہمارے ہر کام کا فیصلہ فزیبلیٹی کی بنیاد پر ہوتا رہا ہے، اسکول جو پاس تھا اور جس میں محلے کے دوسرے بچے پڑھتے تھے اسی میں داخل کرائے گئے کہ آنا جانا انہی بچوں کےساتھ ہوجائے ۔ کالج بھی جو سب سے نزدیک تھا اسی کا انتخاب اس بنا پر کیا گیا کہ اس وقت کراچی کے خراب ترین حالات میں وہاں سے جان بچا کر بھاگنا سب سے آسان تھا۔ یونیورسٹی کی باری آئی تو ابا نے کہا دیکھ لو اتنی دور کا سفر کر سکتی ہو، آ جا سکتی ہوں تو داخلہ لے لو۔ یعنی میرے بھروسے پہ نہ رہنا اپنی فزیبلٹی خود دیکھ لو۔


پھر سرکاری جاب کے لیے صرف ٹرائی ماری تھی وہ تو مل ہی گئی، اور وہ بھی صرف 100 روپے کی رشوت پر۔ پوسٹنگ بھی ایسی جگہ پر ہوئی کہ صرف بڑے صاحب ہی فیصلہ کرنے کے مجاز تھے ہم صرف تجویز دے سکتے تھے یا اپنی تجویز کے حق میں چند ایک دلائل۔

قصہ مختصر ہمیں خود فیصلہ کرنے کی نا عادت ہے اور نہ ایسی کوئی روایت ہے۔ تو ہمارے بارے میں یہ تاثر کہ ہم فیصلہ کرنے میں آنا کانی کرتے ہیں اور کھل کر کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ بالکل درست ہے۔ اور یہ ہمارا اپنافیصلہ ہے کیوں کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ فیصلہ کرنا ایک مشکل کام ہے اور جو فیصلہ ساز سیٹ پر ہوتا ہے، اس کے لیے سب کو خوش کرنا بہت مشکل ہے اور ہر جانب سے گالیاں کھانے کا امکان تعریف سننے کے امکان سے دس گنا زیادہ ہوتا ہے۔ آپ یا تو صحیح فیصلہ کرلیں یا سب کو خوش کرلیں۔ دونوں کام ایک ساتھ نہیں ہوسکتے۔

ویسے بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ دوسروں کے فیصلوں سے ایگری کرنا سب سے آسان کام ہے، ہینگ لگے نہ پھٹکری، اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے ۔ ہم اب تک یہی کرتے تھے، لیکن اس کا کیا علاج کہ کچھ لوگوں نے چالاکی سے سارے فیصلے ہم پر ڈال کر ہمیں ایڈمن بننے کا نشہ لگا دیا ہے

ہن لگن لگی کی کریئے
جی سکئیے نہ مریئے
اور سب سے برے بنئے