Wednesday, October 22, 2014

حاصل ملاقات: لاہور سے یارقند @ کراچی 19 اکتوبر 2014

ہم جیسے غریب غربا ایک تو خود کو بہت کمتر اورنااہل سمجھتے ہیں .. دوسرا سلیبریٹیز سے بہت مرعوب ہوتے ہیں اور چاہے انکو کتنا بھی پسند کریں اگر وہ سامنے بھی ہوں تو ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر پاتے, بات کرنا تو اس کے بعد کی بات ہے .. اور فون کرنا اور فون پر بات کرنا تو ناممکنات میں گنتے ہیں.
قبل از یوم گزشتہ ہمارا بھی یہی حال تھا. ہم سمیرہ سے کئی بار یہ گوش گزار کر چکے تھے کہ بھئی سلیبز سے دور کی دعا سلام اچھی .. اور پہلی بار ہم لاہور چاچا جی سے ملنے کے شوق میں کم اور سمیرا سے ملنے کے شوق میں زیادہ گئے تھے.
ہم چاچا جی سے بھی دور دور کی دعا سلام کے حق میں تھے ... پہلی بار جب سمیرا نے چاچا جی سے فون پر بات کروائی تھی تو گھبراہٹ میں کچھ الفاظ حلق میں ہی قیام پذیر ہوگئے اور جو باہر آئے وہ اپنی ترتیب بھول گئے بعد والے لائن توڑ کر آگے آگئے اور آگے والے منہ دیکھتے رہ گئے ان کی باری آئی تو چراغوں میں روشنی نہ رہی. اور کچھ الفاظ تو دوبارہ بھی باری لینے لگ گئے.

اب جب لاہور سے یارقند @ کراچی کی ذمہ داری ہمارے کاندھوں اور دماغ پر سوار ہو ہی گئی تو ... مسئلہ یہ تھا کے چاچا جی سے بات کیسے کریں ... جہاں تک ممکن ہوا ادھر ادھر سب کو بہانے بہانے سے آگے لگایا, تہمینہ آپا آپ چاچا جی سے دن کنفرم کر لیں, عاطف آپ چا چا جی سے یہ پوچھ لیں ... سمیرا بھین نہیں ہو یار میں نے کبھی بات نہیں کی ... تم کرلو ... اچھا میں میمونہ چاچی سے بات کرلیتی ہوں وہ پوچھ کے بتا دیں گی.
لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی. اللہ بلاول کا بھلا کرے کہ اچھے خاصے پلان کیے ہوئے ایونٹ کی ماں بہن ایک کردی ... اب پروگرام ہفتہ کے بجائے اتوار کو شفٹ کرنا تھا. باقی سب انتظامات کی تو شفٹنگ ہوگئی لیکن چاچا جی سے کون کہے کہ اب ہفتہ کو نہیں اتوار کو وقت چاہیے.
کچھ ہماری اپنی اور کچھ مہربانوں کی احاطہ تحریر میں نا لائی جاسکنے والی حرکتوں کی بناء پر یہ منہ اب اس لائق نہیں رہ گیا تھا کہ کوئی ہماری مدد کو آتا. ناچار اس لاچار کو خود ہی فون گھمانا پڑا.
اب ہماری زبان تو قینچی کی طرح چلتی ہے, اور چاچا جی کیوں کہ بلا ناغہ اور بلا اجازت ہفتے کے چھ دن کئی سالوں تک ہمارےگھر کےاکلوتے کمرے میں, جو ہمارا بیڈروم کم ڈرائنگ روم کم ڈائیننگ روم کم کامن روم تھا, صبح ہمارے جاگنے سے پہلے ہی چلے آتے تھے اور ہم سے لاڈ پیار اور ہنسی مذاق فرماتے تھے, تو ہم اپنے تئیں ان سے کافی بے تکلف تھے, خیالوں ہی خیالوں میں. سو ہم نے سلام کیا اور اپنی ٹریں چلانی شروع کر دی, چاچا جی بے چارے حیران پریشان کہ یہ کون سی مرغابی ہے .. ہم اپنی طرف سے جوش میں اور چاچا جی "ارے لڑکی مجھے اپنی بات تو پوری کرنے دو, بیچ میں بولتی ہو, مجھے ساری بات بھلا دی" اب ہم سائلنٹ موڈ پہ چلے گئے, تو چاچا جی بات کرتے کرتے "ہیلو تم ہو" "جی میں خامشی سے آپ کی بات سن رہی ہوں" ، " تو جواب تو دو نا " ہم نے ہنسنا شروع کر دیا "لو اب ہنس رہی ہو"
خیر جناب بلآخر جو ایک خوف سوار تھا کہ پتہ نہیں بات کرنے سے انکار نہ کردیں , کوئی بات ناگوار نہ گزرے, ڈانٹ نہ دیں ... سب اڑن چھو ہوگیا اور آج فون پہ:::
"چاچا جی اب مجھے آپ سے بے تکلف فون پہ بات کرنے کی عادت ہوگئی ہے, اب میں آپ کو بہت تنگ کروں گی"
"ہاں ہاں ... پہلے تم مجھے تنگ تو کرو پھر دیکھوں گا تمہارے ساتھ کیا کرنا ہے۔