پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر تین لیڈر ہی ایسے ہیں جو اپنی ساحرانہ شخصیت کی بنیاد پر لیڈر بنے ہیں۔ پہلے بھٹو صاحب، دوسرے الطاف حسین اور تیسرے عمران خان۔ پاکستان کی سیاست میں سیاسی رومانویت پسندی کوئی نیا پہلو نہیں ہے۔
میرا سیاست سے پہلا انٹرایکشن بہت کم عمری میں ہوا تھا جو پہلی یاد سیاست سے وابستہ ہے وہ کوئی ایک الیکشن تھے جس میں ایک جانب بھٹو صاحب اور دوسری جانب نو ستاروں والی کوئی سیاسی جماعت تھی۔ محلے کی ساری خواتین باجماعت بھٹو صاحب پر فدا تھیں اور زیادہ تر مرد بھی کیوں کہ مردوں کی زیادہ تعداد مزدور پیشہ تھی۔ صرف ایک خان صاحب کا گھرانہ تھا جو نو ستاروں کی حمایت کرتا تھا۔ الیکشن والے دن ساری خواتین نوستاروں والوں کی ارینج کی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر پولنگ اسٹیشن گئیں اور بھٹو صاحب کو ووٹ ڈال آئیں۔
ہم بچوں کی الیکشن میں دلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ پولنگ بوتھ ہمارے اسکول میں بنا تھا اور ہم اپنی اپنی امیوں کے ساتھ اسکول گئے تھے اور پڑھنے کے بجائے اسکول کے باہر خالی میدان میں کودتے پھاندتے پھر رہے تھے اور جب تک امیوں کی ووٹ ڈالنے کی باری نہیں آگئی ان سے پیسے لے لے کر آلو چھولے اور اسی قسم کی دیگر اشیاء کے مزے اڑاتے پھرتے تھے۔
سیاست سے منسلکہ دوسری یاد اتنی خوشگوار نہیں ہے ۔ پورے ملک میں یا کم از کم کراچی میں کرفیو لگا تھا۔ اور اس دن بھٹو صاحب کو پھانسی دی جانی تھی یا دی گئی تھی۔ پورا محلہ سوگوار تھا۔ کئی گھروں میں شائد اس دن چولھا بھی نہیں جلا ہوگا۔ ہمارے گھر میں ایک رشتہ دار خاتون اپنے میاں سے لڑ کر ناراض ہو کر آئی بیٹھی تھیں جنہیں میری امی قطعی ناپسند کرتی تھیں لیکن دونوں اس دن مل کر ایک دوسرے سے بھٹو صاحب کا افسوس کر رہی تھیں۔ بھٹو صاحب تو نہ رہے لیکن جو خواب وہ اس ملک کے غریبوں کو دکھا گئے تھے ان کے سحر سے عوام بہت سالوں تک نہ نکل سکے اور چند ایک توا بھی تک اسی سحر میں مبتلا ہیں۔ روٹی کپڑا او ر مکان ایک ایسا نعرہ تھا جو ہر خاتون کی خواہش ہے اور ہر مرد یہ خواہش پوری کرنے کی آرزو رکھتا ہے خاص کر مزدور اور نچلا طبقہ ۔ اور بھٹو صاحب نے ان کے دل کی بات کر کے ان کے دل میں جگہ بنالی تھی۔
بھٹو صاحب کے بعد ان سب نے ان کی لاڈلی بیٹی سے یہی امیدیں وابستہ کر لیں ۔ وہ ساری محبت جو بھٹو صاحب کے لیے تھی وہ ان کی بیٹی پر نچھاور کر دی۔ لیکن انکی بیٹی دو بار اور انکی پارٹی تین بار حکومت میں آئی اور ہر بار انکے چاہنے والے ان سے امیدیں لگا کر بیٹھے کہ انکی تقدیر بھٹو صاحب کی بیٹی یا پارٹی بدلے گی پر وائے قسمت ۔۔۔ غریبوں کی قسمت نہ کبھی بدلی نہ بدلے گی۔ آج پیپلز پارٹی کی کمپوزیشن بھٹو صاحب کی پارٹی سے 180 درجے کے زاویے پر ہے لیکن کچھ سادہ دل اور وفادار "سب کچھ" ہو جانے اور کھو جانے کے بعد بھی بھٹو صاحب کے نام پر اسی سے لو لگا کر بیٹھے ہیں۔
اسی دوران جب بھٹو صاحب کی بیٹی جلاوطن تھیں۔ کراچی میں ایک اور ساحر الکلام سیاستدان اور اسکی پارٹی خبروں میں جگہ بنانے لگی۔ گو کہ اس ساحر کی شکل و صورت تو بھٹو صاحب کی طرح ساحرانہ نہیں تھی پر اسکے کلام اور حاصل الکلام کا سحر بھی کچھ کم نہیں تھا۔ اس نے کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں اردو اسپیکنگ اکثریت کے سر پر ہاتھ رکھا۔ جو لوگ اب تک "ہندوستانی" کہلاتے تھے انہیں ایک نئی شہریت " مہاجر " کے نام سے دی ۔ خود کوبڑے بھائی کا رتبہ دیا اور بھائی کہلانا پسند کیا ۔ انہوں نے اردو بولنے والوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا اور اردو بولنے والوں کی دانست میں ان پر جو زیادتیاں پاکستان بننے سے لے کر اب تک ہوئیں ان کے ازالے کے لئے وعدے وعید کئے۔ نتیجہ ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ان کے جلسوں میں عوام کی شرکت اور ان کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد کا ریکارڈ کوئی نہیں توڑ سکتا ۔ بھائی کی تقریر کا کوئی توڑ نہیں ہوتا تھا بھائی پوری تیاری سے تقریر کرتے تھے بمعہ تحریری اور دستاویزی ثبوتوں کے ۔ بھائی کے سارے ایم این ایز اور ایم پی ایز کم از کم گریجویٹ ہوتے تھے۔
ہم اسوقت اسکول یا کالج میں ہوتے تھے۔ بھائی کی قادرالکلامی کے باعث کچھ لوگ انہیں پیر صاحب بھی کہنے لگے ۔ انکی شبیہ کبھی کروٹن کے پتوں پر نظر آتی کبھی مسجد کے فرش کے ماربل میں اور انکے مرید مسجد کا فرش اکھاڑ کر وہ ٹائل انہیں پیش کر دیتے ۔ انکی پتنگ کافی عرصہ بہت اونچی اڑی اور یہ اردو بولنے والی آبادی میں بہت ہٹ ہوئے اتنا کہ پھر انہوں نے دوسروں کو ہٹ کرنا شروع کردیا۔ انکی داستانیں پندرہ روزہ تکبیر میں آتیں ہم پڑھتے اور "ہنہ ہمارے بھائی کی شہرت سے جلتے ہیں" کہہ کر ان پر ہرگز یقین نہ کرتے ۔ بے نظیر کے پہلے یا دوسرے دور میں جب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سول وار جاری تھی، آن ریکارڈ دونوں طرف کے قیدی اور ٹارچر سیلز کے زخمیوں کا لین دین ہوا، بڑی تکلیف ہوئی کہ ہیں یہ ہمارے بھائی ہیں۔ خیر ان دی اینڈ نواز شریف صاحب نے انکی گڈی کاٹنے کی اور ایک اور گڈی اڑانے کی کوشش کی لیکن وہ گڈی آج تک بکتر بند کے اندر ہی اڑتی ہے کھلی ہوا میں نہیں۔
۔ جب کراچی کے نوجوان سول وار میں مر رہے تھے اور بچے کچھے فوج اور رینجرز کے ہاتھوں غائب ہورہے تھے بھائی لندن میں جا کر بیٹھ گئے۔ وقت گزرتا رہا اور بھائی اردو بولنے والوں کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر کے مظلوموں کے ساتھ ہو گئے اتنا کہ کوٹہ سسٹم پر مزید 20 یا 30 سال کی پابندی کی خبر بھائی کی نظروں میں آئی ہی نہیں۔ بھائی نے اکثریت کو خوش کرنے کے لیے سیاسی شادی کی جس کا وہی انجام ہوا جو ایسی شادیوں کا ہوتا ہے جن لوگوں کے خلاف اٹھے تھے ان سے اتحاد کر لیا، اور "مہاجروں" کو بتایا کہ اب وہ "اردو اسپیکنگ سندھی " ہیں ۔ ہر حکومت میں شامل رہے لیکن اردو بولنے والوں کے مسائل وہیں رہے جہاں تھے۔ جن وجوہات کی بنا پر مقبولیت حاصل کی تھی وہ اب بھائی کو یاد ہی نہیں ہے ۔بہت سے لوگ بھائی کے سحر سے نکل آئے ہیں ۔ باقی بھی نکل آئیں گے لیکن پیپلز پارٹی کی طرح کچھ لوگ اپنے مفادات کی خاطر اور کچھ اپنی فطری سادگی کے باعث بالترتیب ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں گے اور ان پر یقین کرتے رہیں گے۔
پھر ہم نے 1992 کا ورلڈ کپ جیت لیا ۔ سارے میچ ہارنے کے بعد بارش اور ویسٹ انڈیز کی مہربانی سے۔ورلڈ کپ، شوکت خانم ہسپتال نے ہمارے ہیرو کو یقین دلا دیا کہ وہ جو چاہے حاصل کر سکتا ہے اور انجام کار عمران خان نے سیاست میں قدم رکھ دیا ۔ ایک طرف کرکٹ میں وہ کامیابی جو اس سے پہلے اس قوم کو نہیں ملی تھی دوسری جانب کینسر ہاسپٹل اور کم از کم دو دہائیوں کی ہیروشپ۔ مردوں کا تو پتہ نہیں لیکن خواتین تو پہلے سے ہی کپتان پر ریشہ خطمی تھیں۔
ہم بھی بہت خوش ہوئے تھے کہ بے نظیر اور نواز شریف سے ہٹ کر کوئی اور آپشن بھی ہے جو زیادہ قابل اعتماد ہے ۔ ایک پڑھی لکھی فیملی کا صاف ستھرا ، دنیا دیکھا ہوا، یورپ کی جمہوریت کو برتا ہوا اور سب سے بڑھ کر ایک ایماندار اور نان کرپٹ لیڈر ، یقیناً کپتان سے امیدیں باندھنا غلط نہیں تھا ۔ لیکن وہ کچھ زیادہ ہی اوور کانفیڈنس کا شکار ہوگئے۔ یہ تیسری لیڈرشپ ہے جو پولیٹیکل رومنٹی سزم کی سب سے اعلیٰ مثال ہے۔ ان کی لیڈر شپ کا اگر تجزیہ کیا 50 فیصد فین فالوشپ انکی ہیروشپ ہی کی وجہ سے ہی ہے۔ کپتان کے چاہنے والوں خاص کر چاہنے والیوں پر انکا سحر اس حد تک طاری ہے کہ انہیں کپتان کی بدزبانی ، جھوٹ، یو ٹرنز ، غیر جمہوری مطالبے اور روئیے کچھ بھی نظر نہیں آتا ،کچھ تو بدزبانی میں کپتان سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔
ان ساری خامیوں سے قطع نظر بہت سارے لوگ انکے مستقبل ِ پاکستان کے جو خواب ہیں انکے سحر میں ہیں۔ مجھے ڈر لگتا ہے اس وقت سے جب انکا یہ سحر ٹوٹے گا، خواب ٹوٹنے کی تکلیف ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ بندہ پھر کسی پر اعتبار نہیں کر پاتا ۔ عمران خان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کی نا صرف درست سمت میں قیادت کریں بلکہ انکی اخلاقی تربیت پر بھی دھیان دیں یہی نوجوان کل ہمارا ملک سنبھالیں گے تو کیا کسی نااتفاقی کی صورت میں دوسروں کی ماں بہن ایک کر رہے ہونگے یا ایک دوسرے کا گھر مسمار کر رہے ہوں گے یا نہیں ملتا تو چھین لو کی پالیسی پر عمل کر رہے ہوں گے ۔ کیا یہی انصاف ہوگا نئے پاکستان میں اور جو خواب آج یہ ان نوجوانوں کو دکھا رہے ہیں اللہ کرے ان کی تعبیر دینے میں بھی کامیاب ہو جائیں۔ اگر انہوں نے بھی ان نوجوانوں کو دھوکہ دیا اور ویسے ہی ثابت ہوئے جیسے ان سے پہلے کے سیاسی رہنما تو شاید پاکستان کے عوام بالخصوص نوجوان آئیندہ کبھی کسی سیاسی رہنما پر بھروسہ نہیں کر سکیں گے۔ اللہ کرے کہ میرے خدشات کبھی پورے نہ ہوں۔