Saturday, October 25, 2014

نوحہ گرانِ ماضی

بحثیت قوم ہماری عادات کہن میں سے ایک عادت ہر قسم کے شاندار ماضی کی نوحہ گری بھی ہے ..

کوئی مسلمانوں کی عظمت گزشتہ کی نوحہ گری میں مصروف ہے جب اسلامی خلافت یا سلطنت کی حدیں کہاں سے کہاں تک تھیں تو کوئی آج یورپ و افریقہ کی علمی ترقی کو مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات کا آئینہ دکھا رہا ہے کہ تم کیا بیچتے ہو یہ تو ہم تھے جس نے تمہیں سوداگری کی الف بے سکھائی.

کوئی لاہور کی سابق حالت زار کا ماتم کرتا ہے تو کوئی کراچی کی روزانہ دھلنے والی سڑکوں پر ابھی تک چہل قدمی کرنے پر مصر ہے. اور آج بھی ٹرام میں ہی سفر کر رہا ہے. ایک اخبار میں تو کولاچی سے کراچی نام کا ہفتہ وار صفحہ مہینوں سے چھپ رہا ہے جس میں سب اپنے اپنے حصے کے بین ڈالتے ہیں . آپس کی بات ہے یہ بین پڑھنے میں بہت مذیدار لگتے ہیں ..

کوئی آج بھی پی ٹی وی کے دور کے ڈراموں سے آج کے ڈراموں سے موازنہ کرتا ہے اور انتقاماً ڈرامے دیکھنے ہی چھوڑ بیٹھا ہے.بے بی ڈول کے مقابلے میں ونجلی کی تان سننے پر مصر ہے

سوال یہ ہے کہ ماضی کے ان مزاروں کی نوحہ گری کا فائدہ کیا ہے ... اگر ماضی کے ان تجربات سے کوئی فائدہ اٹھا کر یا کوئی نتیجہ اخذ کر کے اپنا آج بہتر بنایا جا سکتا ہے تو ویل اینڈ گڈ . ورنہ اس نوحہ گری میں اپنا وقت, توانائی اور صلاحیتیں ضایع کرنے کا حاصل کیا ہے .