Wednesday, November 30, 2016

عزت و بے عزتی کے معیارات

صابن کا اشتہار:

ایک نوجوان خاتون، کاندھے سے نیچے ڈھلکتے ہوئے لباس میں ایک نوجوان مرد کو Seduce کر رہی ہیں اور مشتہر یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر آپ لکس سے غسل فرمائیں گی تو آپ کا شوہر یا بوائے فرینڈ آپ کے جسمانی قرب کے لیے پاگل ہوجائے گا۔ 

دوسرے اشتہار میں ایک اور خاتون اپنے برہنہ شانوں پر صابن کا پردہ ڈالے شاور میں کھڑی پتا نہیں خواتین کو یا حضرات کو مطلوبہ صابن سے غسل پر آمادہ کر رہی ہیں۔

ملک و قوم و نظریہ پاکستان کے ذمہ داران سورہے ہیں۔

Tuesday, November 29, 2016

روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں


حال دل رو برو سنانے کا جو لطف ہے اس کا تو کوئی بدل ہی نہیں لیکن ہر ایک کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر ایک میں دل کی بات رو برو کہہ دینے کی جرات ہوتی ہے اسی لیے خط لکھنے کی روایت پڑی ہوگی۔ ویسے بھی رو برو بات کہنے میں یہ بھی امکان رہتا ہے کہ اگلا آپ کی بات کاٹ کر اپنی رام کہانی شروع کردے اور آپ کی بات درمیان میں ہی کہیں رہ جائے۔

اردو شاعری سے اگر"نامہ بر" کو نکال دیں توایسی وارداتوں کے امکانات ایسے ہی 50 فیصد  کم ہوجاتے ہیں جن پر  اردو شاعری کی پوری عمارت کھڑی ہے۔   عاشقان اپنے  محبوبان کو دل کا حال سنانے کے لیے خط کا سہارا لیا کرتے تھے، کبھی خون دل سے خط لکھے جاتے، ایک کونے پر دل میں پیوست تیر سجائے جاتے اور پھر کبوتروں کونامہ بر بنایا جاتا۔ خط کبوتر کے حوالے کر کے اسکے منزل مقصود پر پہنچنے کی دعائیں بھی مانگا کرتے:

Tuesday, November 1, 2016

ذہنی ارتقاء اور سماجی روئیے

میری پانچ سالہ بھتیجی فاطمہ ہر ٹرپ پر دورانِ سفر میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھتی ہے, اور بے دھیانی میں یا جان بوجھ کر میرے پیر سے پیر ٹکراتی رہتی ہے .. میں اس کی ٹکروں سے بچنے کے لیے اپنے پیر دائیں بائیں شفٹ کرتی رہتی ہوں اور وہ بے دھیانی میں بھی اپنے پیر ادھر ادھر گھما پھرا کر پھر میرے پیروں پر رکھ دیتی ہے۔

یہ آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ میں تنگ آجاتی ہوں اور ذرا چڑ کر اسے اپنے پیر سنبھالنے کو کہتی ہوں۔  تھوڑی دیر وہ خیال کرتی ہے لیکن کچھ ہی دیر میں پھر اس کے پیر میرے پیروں پر ہوتے ہیں۔

Monday, October 24, 2016

خواہشمندگان فیس بک فرینڈ شپ کی خدمت میں

اس پر تو کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ہم یعنی کہ ہم اپنی فیس بک پروفائل پر "دوست" بننے کے امیدواروں سے تنگ آئے ہوئے ہیں، اور اکثر و بیشترفرینڈ رکویسٹ بھیجنے والوں یا ان باکس میں ایڈ کرنے کی درخواستوں اور دھمکیاں بھیجنے والوں کی شان میں کھلے عام گستاخانہ و طنزیہ اظہار رائے کرتے رہتے ہیں۔ 

Tuesday, October 18, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ہشتم)

یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی 


درہ مولہ کی منفرد ٹوپوگرافی
جاتے ہوئے ہمیں پیدل جانے میں اتنا مزہ آیا کہ واپسی پر جب ہمیں جیپ رائڈ آفر ہوئی تو ہم نے انکار کردیا اور پیدل واپس آنے کو ترجیح دی۔ ریسٹ ہاؤس پہنچے تو جھٹپٹے کا عالم تھا نہ مکمل روشنی نہ مکمل تاریکی۔ کچھ لوگ ہم سے پہلے کے واپس آچکے تھے، تمام مقامی اور ڈرائیور حضرات لنچ یا ڈنر میں مشغول تھے، ہم بھی منہ ہاتھ دھو کر لائن میں لگ گئے، ریسٹ ہاؤس کیونکہ چاروں جانب سے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا ہوا کا نام و نشان نہیں تھا شدید حبس کی کیفیت تھی۔ اندھیرا بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید لوگ آبشار سے واپس آنا شروع ہوگئے، ریسٹ ہاؤس کے کمرے دن بھر کی گرمی جذب کر کے اب گرمی خارج کرنا شروع ہوگئے تھے، لہذہ کمپاؤنڈ میں دریاں بچھا کر بڑے کھانے کا انتظام کیا گیا، جس کے ساتھ ایک بڑی ایل ای ڈی فلیش لائیٹ لگا کر بظاہر روشنی کی گئی تھی مگر اس کے نتیجے میں باقی سارا جہان گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا ، اور ارد گرد کی خلق خدا نابینا ، نابینا سا محسوس کرنے لگی۔

Sunday, October 16, 2016

تاک بندر، اورمارہ ایڈونچر

تاک بندر کیمپ سائیٹ

سالانہ فیملی ٹرپ کئی ماہ سے لڑھکتا آگے کھسکتا جارہا تھا، عید پر بننے والا پروگرام ٹلتے ٹلتے بقر عید پر پہنچا۔ بقر عید پر گورکھ ہلز یا تھر پارکر جانے کا سوچا لیکن موسم چیک کرنے پر پتا چلا کہ درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر رہے گا، بچوں کے ساتھ اتنی گرمی میں سفر نامناسب ہے ۔ پھر کنڈ ملیر ہی دھیان میں آتا ہے ۔ لیکن کنڈ ملیر اتنی بار جاچکے ہیں کہ اب دل کرتا ہے کہ کوئی نئی جگہ ایکسپلور کی جائے۔

Friday, October 7, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ہفتم)

لنگ آجا پتن چناں دا یار


مولہ چٹوک کی سیال چاندی
فوٹوکریڈٹ: آلموسٹ فوٹوگرافی - ماجد حسین
مولہ آبشار کی سمت سے پانی آنے کا بس یہی ایک راستہ تھا۔ سارے پانی ہمارے سامنے سے ہماری طرف آتے تھے۔ جہاں جیپ نے آگے بڑھنے سے انکار کیا تھا وہاں ایک تنگ درہ ہے جس سے راستہ اندر جاتا ہے یعنی پانی جس راستے سے باہر آتا ہے، دونوں جانب اونچے پہاڑ ہیں۔ اگر پیچھے کہیں دو چار روز پہلے بارش ہوئی ہو تو اچانک فلیش فلڈ آنے کی صورت میں لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ لیکن لاعلمی بڑی نعمت ہے، اسی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہم کبھی پانیوں پر اور کبھی پانیوں میں اٹھکیلیاں کرتے چل رہے تھے۔ پانی اپنی فطری زگ زیگ روش پر رواں دواں تھا ہم کبھی پانی کراس کر کے دائیں ہوجاتے، کبھی بائیں، اور کبھی درمیان میں پانی میں چھپا چھپ کرتے ایک دوسرے پر چھینٹے اڑاتے۔ کبھی ہمارے ٹیبلٹ سے نورجہاں تانیں اڑاتیں اور کبھی ہمسفر اپنی آواز کا جادو جگاتے جس میں ہم دونوں اپنی بھونڈی آواز ملانے کی کوشش کرتے اور پھر اپنی ہی آواز سے گھبرا کر چپ ہوجاتے۔ یا ہنس پڑتے۔ ہماری جیپ خراب نہیں ہوئی تھی بلکہ ہماری جیسے لاٹری نکل آئی تھی۔