Thursday, May 7, 2015

غریبی کے سائیڈ ایفیکٹس بلکہ آفٹر شاکس

عمرانیات کی کلاس میں استاد نے کلچر پڑھاتے ہوئے ایک جملہ کہا تھا کہ کلچر آف پاورٹی، پاورٹی آف کلچر میں تبدیل ہوجا تا ہے۔ یہ جملہ اس وقت تو یاد کر لیا تھا کہ امتحانی کاپی میں لکھ کر استاد کو متاثر کرنے کے کام آئے گا کہ ہم کتنے فرمانبردار شاگرد ہیں ، استاد کا کہا کتنا یاد رکھتے ہیں۔ لیکن جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا تو اس جملے کا مطلب صحیح سے سمجھ آیا ہے، گویا بال جھڑنے کے بعد کنگھی مل گئی ہے۔

جب آپ نے ایک عمر غریبی میں گزاری ہو تو غریبی کا کلچر اور مائنڈ سیٹ آپکے لہو میں سرائیت کر جاتا ہے، آپ ہمیشہ ہر شے کو اسی آئینے میں دیکھتے ہیں۔ غریبی خاص کر غریب بچپن آپ میں کچھ مخصوص اور مزیدار عادتوں کا باعث بنتا ہے۔
جیسے کہ ایک وقت ہوتا ہے کہ آپ چاکلیٹ، آئس کریم ، کیک اور اسی نوعیت کی دیگر اشیاء افورڈ نہیں کر سکتے۔ اس کے دو ری ایکشن ہوتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ آپ ان چیزوں کا ذائقہ کبھی ڈیویلپ نہیں کرپاتے اور ہمیشہ انہیں نا پسند کرتے ہیں۔ یا پھر یہ ہوتا ہے کہ آپ چاکلیٹ، آئس کریم اور کیک کے دیوانے ہوجاتے ہیں۔ اور بچپن کی حسرتوں یا ندیدے پن کو پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ اب آپ سے کیا پردہ ہمارا شمار اس دوسری قسم میں ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم جب بھی اپنی حسرتیں پوری کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ بچہ پارٹی ہم سے پہلے اپنا بچپن انجوائے کرنے درمیان میں آجاتی ہے۔ 

بچپن میں آپ کو ایک ہی پرفیوم کا پتہ ہوتا ہے، چارلی ، جو آپ کے ماموں یا چاچا نے دبئی سے لا کر دیا ہوتا ہے۔خریدنے کی کبھی ہمت یا گنجائش نہیں ہوتی۔ بڑے ہونے+ حالات بہتر ہونے کے بعد بھی آپ کو پرفیومز کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا، نا پرفیوم لگانے کی عادت ہوتی ہے، اگر کوئی پرفیوم تحفتہً بھی دے دے تو وہ بس آپکی ڈریسنگ ٹیبل پر دھرا رہتا ہے، لگانےکی نوبت کم ہی آتی ہے کہ یاد ہی نہیں رہتا۔ اس ضمن میں پھوہڑ پن کی حد یہ ہے کہ ایک صاحب حج سے واپسی پر کچھ خوشبویات لے کر آئے اور پوچھا، کہ آپ کو کونسا عطر پسند ہے؟آپ کو کونسا دیا جائے۔ اب ہم پینڈو کیا بتائیں۔ پھر وہی کیا ، سچ کا بول بالا، کہہ دیا کہ ہم اس معاملے میں بلکل کورے ہیں، ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ مرد و خواتین کی "خشبوئیں" الگ الگ ہوتی ہیں۔آپ جو دیں گے ہم رکھ لیں گے، کیوں کہ ہم یہی کرتے ہیں۔ ادھر سے جو ہنسی شروع ہوئی تو رک ہی نہیں رہی تھی، جب رکی تو پتا چلا کہ "معاملہ" اُدھر بھی ایسا ہی تھا، یعنی کورا کاغذ۔

کیوں کہ آپ کا بچپن ویل آف نہیں تھا تو آپ کی سکولنگ بھی اردو میڈیم ، سرکاری اسکول سے ہوئی ہوتی ہے، وہ بھی جہاں ایک دن بارش ہوجائے تو دو دن کی چھٹی ہوجائے۔ اور وہاں کے نظام تعلیم کا تو آپ کو خود بھی پتہ ہی ہوگا۔ کہ کس قسم کی پڑھائی اور کتنی ایکسٹرا کوریکولر ایکٹیوٹیز ہوتی ہیں۔ اور اسکے بعد سکنڈری اسکول میں انگریزی کا خوف۔ "اللہ میاں بس انگریزی میں 33فیصد نمبر آجائیں، پلیز" پھر اسکے کئی سالوں بلکہ دھائیوں بعد جب آپ کے بچے سامنے کھڑے ہوکر ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار پڑھتے ہیں تو آپکا دل کتنا بڑا ہوجا تا ہے، بے شک وہ اسکول شہر کا بہترین انگلش اسکول نہ ہو۔

آپ کے حالات غربت سے آگے چلے جاتے ہیں لیکن آپ غربت کا ساتھ چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ شاپنگ کرتے ہوئے ہمیشہ آپ کو ہر شے کی قیمت بہت زیادہ لگتی ہے۔ آپ کی ذاتی آمدنی بھلے فائیو فگرز میں کافی آگے تک جاچکی ہو لیکن کبھی جو جوتا آپ نے 100 روپے کا خریدا تھا، اس سے دس گنا بہتر جوتا بھی آپ کو موجودہ قیمت میں مہنگا لگ رہا ہوتا ہے، آپ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ آپ کی آمدنی جب سے اب تک کس ہندسے سے ضربوں ضربی ہوگئی ہے، آپ کو صرف جوتے کی قیمت ضرب کھاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ 

سب سے برا آپ کے ساتھ جب ہوتا ہے جب آپ اپنے جدید دوستوں کے ساتھ کسی جدید ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے چلے جائیں۔ ویٹر آپ کے سامنے ایسے ایسے منحوس مارے ناموں والے کھانوں کا مینو رکھ جائے گا جن کے نام آپ نے پہلے کبھی سنے بھی نہیں ہونگے۔ اورانکا نام پروناونس کرتے ہوئے آپکی زبان دو تین بل کھا کے بھی انہیں درست طور پر پکار نہیں پائے گی۔ ادھر آپ کا میزبا ن انتظار میں کہ آپ اپنے لیے کیا پسند کریں گے کہ وہ آرڈر دے، اب بندہ کیڑھے پاسے جائے تے منجی کتھے ڈھائے۔کتنی دیر آئیں بائیں شائیں کر یں گے اب یا تو جو آپکے دائیں یا بائیں والے نے آرڈر کیا ہے اسی پر آپ بھی انگلی رکھ دیں اور جو کچھ آئے وہ آپ کی قسمت یا دل کڑا کر کے کسی بھی ڈش پر ہاتھ رکھ دیں ، اس صورت میں بھی آپ کی قسمت۔