Friday, May 1, 2015

Let’s have a Cup of Tea ..

چائے پینا ہماری روزمرہ عادات میں شامل ہے۔ جی ہاں ہم لوگ ضرورتاً نہیں عادتاً چائے پیتے ہیں۔ کوئی کام نہیں، فارغ بیٹھے ہیں، چلو ایک کپ چائے ہوجائے۔ کام زیادہ ہے، ہاں ابھی کرتے ہیں، پہلے چائے تو پی لیں۔ اف آج تو بہت کام کر لیا، اب ایک کپ چائے تو پی لیں۔

میرے لیے چائے پینا ہمیشہ سے ایک فالتو کام رہا ہے۔ یعنی چائے پینا بھی کوئی اہم کام ہے بھلا۔ لہذہ ہمیشہ چائے پیتے ہوئے دیگر کام میرے سر پر سوار رہے ہیں، کہ چائے ختم کر کے یہ کام کرنا ہے/کرنے ہیں۔ سو میں چائے ایسے پیتی ہوں کہ یہ کام جلد ی سے ختم ہو تو میں کوئی کام کا کام کروں۔

قاہرہ میں میرے فلیٹ المعروف ہاسٹل میں بوسنیا کی دو بہنیں بھی مقیم تھیں۔ پھر اگلے سال ایک البانوی خاتون بھی آ شامل ہوئیں۔ بوسنیائی بہنیں میری ہم جماعت تھیں اور ہمارا آپس میں Love-Hate والا تعلق تھا، یعنی مرنا، جینا اور لڑنا ، مرنا سب میں ایک دوسرے کو منہ دینا لازمی تھا۔ جب ہم لوگ اپنے اپنے کمپیوٹر، انٹرنیٹ، فیس بک اور اسکائپ سے جی بھر کے بیزار ہوچکتے تو ان میں سے بڑی بہن میرے کمرے کے دروازے میں خاصی ناگفتنی حالت میں آویزاں ہوکر کہتیں:

Naaz’reen .. 


let’s have a cup of tea, 


in the balcony :)


اور بالکونی کی نہ پوچھیں۔ ایک تو وہ فلیٹ ہی کوئی باوا آدم کے زمانے کی یادگار تھا، جس پر کئی سال سے لیپا پوتی نہیں ہوئی تھی۔اس پر اسکا ٹوٹا پھوٹا فرش اور سامنے کی ریلینگ ایسی کہ جس سے سڑک پر سے گزرنے والی گاڑیوں کے مقیم اور سامنے سڑک پرسگریٹ کے کھوکھے پر موجود آوارہ نوجوان ہم خواتین کو براہ راست ملاحظہ کر سکتے تھے۔ سو ہم پرانے پردے اور بستر کی چادریں ہمہ وقت بالکونی کی ریلنگ پر ٹانگے رکھتے تھے۔


بالکونی میں چار عدد پلاسٹک کی کرسیاں اور ایک عدد میز جس کی رنگت دھوپ اور ریت نے ملکر تبدیل کر دی تھیں، ہوا اور سورج کے رحم و کرم پر پڑی تھیں۔ سو " let’s have a cup of tea "کے بعد بالکونی کے "پردے" درست کئے جاتے، ٹیبل کو سیدھا کر کے کسی ہوا دار اور پردہ دار مقام پر پوسٹ کیا جاتا، پھر اپنی اپنی چائے یا کافی تیار کی جاتی۔

اپنی اپنی اس لیے کہ وہ سلیمانی چائے پیتی تھی دودھ کے بغیر اور میرا دودھ پتی کے بغیر گزارا نہ تھا۔ اس کی کافی بھی نیم چڑھا کریلا ہوتی، یعنی ایک کپ پانی میں چار ٹیبل اسپون ٹرکش کافی اور میرے کافی بھی دودھ پتی ہی کی طرح ہوتی تھی، دودھ اور چینی سے بھرپور۔

پھر اپنے اپنے کمروں سے باسی چپسی ، گرم" بیبسی" یا جوس اور سگریٹ اٹھا کر ہم بالکونی میں آ بیٹھتے۔ بالکونی میں بیٹھ کر چائے کے ساتھ بیبسی کی چسکیاں لیتے ہم پہلے تو جی بھر کے ہاسٹل اور انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ کی غیبت کرتے، باقاعدہ کوسنے دیتے جو ہمیں اس تندور میں ڈال کر خود اپنے اے سی گھروں میں آرام کرتے ہونگے۔ سب سے آخر میں ان کے فائینل ڈیسٹی نیشن کے بارے میں منفی پیش گوئیاں کرکے موضوعِ سخن منجانب موسم یعنی گرمی، مصری معاشرے کے خرابیوں اور مصریوں کی غیر پسندیدہ عادات کے بارے میں موڑ دیتے۔ مذاکرے کے پارٹ ٹو میں ہمارا کام صرف سننا ہوتا تھا کہ جو کچھ ان کے لیے غیر معمولی اور ابنارمل تھا، ہمارے لیے نارمل تھا۔
اس دوران میری کوشش ہوتی کہ جلد از جلد چائے ختم کرکے واپس اپنے اصل کام یعنی ریسرچ المعروف کمپیوٹر پر لوٹ جاوں۔ جبکہ اسکا ایسا کوئی ارادہ نہ ہوتا۔ وہ مزے سے چائے، جوس/پیپسی، چپسی اور سگریٹ کی چسکیاں لیے جاتی اور بولتی جاتی، وہ سگریٹ پیتی اور میں دھواں پھانکتی۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد اپنی پوزیشن تبدیل کرتی کہ دھواں مجھے تنگ نہ کرے، رفتہ رفتہ وہ پوری میز کے گرد گھوم جاتی لیکن'پرنالہ' وہیں کا وہیں رہتا۔

اس کے ساتھ تین سال let’s have a cup of tea گزار کر میں نے جانا کہ چائے پینا کوئی کام یا فالتو کام نہیں ہوتا بلکہ ٹی ٹائم دراصل ایک leisure time ہے جس سے دنیا کا ہر کام وقتی طور پر بھول کر پورے طور پر لطف اندوز ہونا چاہیے۔ ہم پاکستانی تو لطف اندوز ہونا بھول ہی چکے ہیں شاید ۔۔۔

تو پھر let’s have a cup of tea

لیکن وہ بالکونی کہاں سے لاوں