الامارات ہوٹل سے تقریباً 10 کلومیٹر پہلے خضدار کینٹ ایریا شروع ہونے سے چند گز قبل آر سی ڈی ہائی وے سے گوادر رتو ڈیرو موٹر وے کا آخری حصہ M-8 نکلتی ہے جسے مقامی لوگ خضدار سکھر موٹر وےکہتے ہیں۔ اس موٹر وے پر تقریباً دس سے بارہ کلومیٹر کے بعد ایک فوجی چیک پوسٹ آتی ہے ، جس سے چند گز کے بعد ہی بائیں جانب ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر مولہ چٹوک آبشار لکھا ہوا ہے۔ یہاں تک موٹر وے بہت ہی شاندار ہے اور یہیں سے مستقل پل صراط سا راستہ نکلتا ہے جو سیدھا بہشت کو جاتا ہے۔ لیکن راستہ اتنا بھی سیدھا نہیں جاتا کچھ کچھ جلیبی بلکہ جنگل جلیبی سا جاتا ہے۔جنہوں نے جنگل جلیبی نہیں کھائی یا نام بھی نہیں سنا ان پر ہم بس ترس ہی کھا سکتے ہیں، بے چارے محروم لوگ۔
Sunday, August 28, 2016
Saturday, August 13, 2016
مولہ چٹوک: سفرنامہ (حصہ دوئم)
جہاں کسی کو بھی کچھ بھی حسب آرزو نہ ملا
سفر نامے کا حصہ اول یہاں پڑھیے۔
گاڑی پارک کر کے واپس آئے تو جب تک بارات کی بس بھی آچکی تھی، اور باقی باراتی بھی۔ کچھ باراتی سیٹوں پر قبضہ بھی کر چکےتھے، ہم نے بھی ایک کھڑکی والی سیٹ پکڑلی۔ گرل فرینڈ نے ہماری دیکھا دیکھی ایک اور کھڑکی پر قبضہ جما لیا ، ان کو نظریں پھیرتے دیکھ کر ہم نے بھی انہیں" ہنہہ "کر کے فوراً اپنے دائیں پڑوسی سے ڈاک خانہ ملا لیا۔ ہماری انکی پہلے سے دعا سلام تو تھی، لیکن یقینی گمان ہے کہ ہم دونوں ہی غالباً ایک دوسرے کے ظاہری حلیے اور سابقہ تعارف کے باعث ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے کے بارے میں بالترتیب خاصے مرعوب و مشکوک تھے، جس کو درست ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ہم سے بارہا دریافت کیا ہوگا کہ "آر یو کمفرٹیبل؟"۔
Labels:
Pakistan,
Tourism,
Travelogue
Saturday, August 6, 2016
مولہ چٹوک : سفر نامہ (حصہ اول)
جو'جانا 'چاہو ہزار رستے ۔ ۔ ۔
دماغ بولا: "اتنا مہنگا ٹرپ اور وہ بھی اتنی جلدی"
دل بولا:
"ایک ہی تو شوق ہے تمہارا"
"نہ تمہیں ڈیزائنرز لان کا شوق"
نہ میک اپ کا خرچہ ،نہ زیور کا شوق"
"بس ایک سیرو تفریح کا ہی تو شوق ہے"
"کیا ہوا جو ایک مہنگا ٹوور کر لیا "
"جگہ بھی تو ایسی ہے کہ اپنے طور پر جانا مشکل ہے۔"
Labels:
Pakistan,
Tourism,
Travelogue
Location:
Khuzdar, Pakistan
Saturday, July 30, 2016
Thursday, July 28, 2016
موو آن
تعلق کا دھاگہ ایک بار ٹوٹ کر دوبارہ جوڑ لیا جائے،
تب بھی جوڑ میں گرہ تو پڑ ہی جاتی ہے۔
جو ہمیشہ یاد دلاتی رہتی ہے کہ یہ تعلق اب پہلے جیسا ہموار نہیں ۔ ۔
پھر ہر سیدھی سادی بات کا مطلب بھی کچھ اور سمجھ لیا جاتا ہے
یا آپ کو لگتا ہے کہ غلط سمجھا گیا ہے۔
غلط مطالب کی تصحیح کرتے کرتے، وضاحتیں کرتے،
صفائیاں دیتے آپ تھکنے لگتے ہیں۔
اور ایک دن وہی تعلق پھر سے مر جاتا ہے،
جو اصل میں تو پہلی بار میں ہی مر گیا تھا،
لیکن محض آپکے گمان میں زندہ تھا۔
اعتبار بس ایک ہی بار ہوتا ہے ..
گیا اعتبار دوبارہ نہیں آتا..
ایک بار اعتبار ٹوٹ جائے،
تو پھر آپ کتنا بھی مخلص ہوجائیں دوسرے کو اعتبار نہیں آسکتا۔
سو اگر کوئی تعلق ٹوٹ جائے تو اس کو ایک بار ہی رو لیں ۔ ۔
اور پھر ہمیشہ کے لیے فاتحہ پڑھ لیں۔
Labels:
Abstract
امید کی کرن
امید کی ایک کرن: تھر پارکر میں آنسو کوہلی کا اسکول فوٹو کریڈٹ: ایکسپریس ٹریبیون |
ان انٹرویوز میں ان بچیوں سے تین سوالات کئے گئے۔
Labels:
Gender,
Pakistan,
Sociograph
Sunday, July 17, 2016
خرد کا نام جنوں
ہمارے معاشرے میں خاص کر شہری معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کا الزام خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے۔
خوب ۔
شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اور معاہدے دو یا زائد فریقوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر ہوتے ہیں ورنہ وہ معاہدے نہیں سمجھوتے کہلاتے ہیں۔ لہذہ شادی بھی ایک ایسا ہی معاہدہ ہے جو ایک مرد اور ایک خاتون کے درمیان برابری کی بنیاد پر طے ہوتا ہے اور اسے برابری کی بنیاد پر ہی جاری رہنا چاہیے۔ لیکن برصغیر خصوصاً پاکستانی معاشرے میں یہ معاہدہ شاذ و نادر ہی برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہاں شادی دراصل شوہر کی ہوتی ہے۔
یہ ایک یک طرفہ معاہدہ ہوتا ہے جس میں دوسرے فریق کا کام صرف پہلے فریق کا حکم بجالانا فرض کرلیا جاتا ہے۔ دوسرا فریق یعنی بیوی پہلے فریق یعنی شوہر کی مرضی کے مطابق سانس لے گی، اس کے خاندان کی خدمت بجا لائے گی۔ اسکی جنسی ضروریات اسکی مرضی اور فریکوئنسی کے مطابق پوری کرے گی، اسکی اجازت سے لوگوں سے میل ملاقات کرے گی، اسکی مرضی اور اجازت کے مطابق ملازمت کرے گی یا نہیں کرے گی۔ گویا اسکی اپنی کوئی شخصیت ، مرضی یا ضروریات نہیں ہیں۔
Labels:
Common Sense,
Gender,
Hypocrisy,
Pakistan,
Sociograph
Subscribe to:
Posts (Atom)