Monday, December 22, 2014

Women Empowerment

اپنے ادارے کے فیلڈ اسٹاف کے لیے ایک لیکچر کی تیاری کے دوران انٹرنیٹ ریسرچ کرتے ہوئے خیال آیا کہ Women Empowerment کی اردو کیا ہوگی ۔ " خواتین کی خود مختاری" یہ اصطلاح ذرا کرخت یا سخت اردو لگی جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے Women Empowerment کا مطلب یا مقصد مردوں سے مقابلہ کرنا یا ان کو اپنے اشاروں پر چلانا ہو ۔ یہ سوچ کر کہ ایک بہتر اور نسبتاً قریب تر اصطلاح کیا ہو ایک سنجیدہ فیس بک گروپ میں اور اپنی فیس بک وال پر پوسٹ کی کہ ویمن ایمپاورمنٹ کا اردو مترادف کیا ہوگا۔ جو پہلا کمنٹ آیا وہ تھا ، "مردوں کی شامت"، دیگر کمنٹس عورت راج، فی میل ڈامینیشن، عورت کی لگام اس کے ہاتھ میں دینا، مردوں کی قید، غیر متوازن معاشرہ، این جی اوز کا ذریعہ معاش وغیرہ تھے ۔ یاد رہے کہ یہ رائیں مردوں اور عورتوں کی دونوں کی تھیں اور کافی حد تک تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کی تھیں۔ ان خواتین میں زیادہ تر وہ خواتین تھیں جو اپنے فیصلے خود کرنے کی عادی ہیں، جو اپنے گھروں میں فیصلہ کن مقام پر فائز ہیں۔ اور ایسے حضرات جو اپنے دفاتر میں اپنی تعلیم یافتہ اور روشن خیال دوسرے الفاظ میں خودمختار خواتین کولیگز کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان سے دوستی پر بظاہر فخر کرتے ہیں ۔ خیر اس ورزش کے نتیجے میں خود مختاریِ خواتین سے بہتر ایک اصطلاح حاصل ہوئی تقویت کاریِ نسواں یا خواتین کو تقویت دینا جو Women Empowerment کے معنی کے نزدیک تر ہے۔

Friday, November 28, 2014

"کم از کم" ایمان والی قوم

حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ جب تم کوئی برائی دیکھو تو اسے ہاتھ سے روکو، ہاتھ سے نہ روک سکو تو زبان سے روکو/برا کہو اور اگر زبان سے بھی نہ کہہ سکو تو دل میں برا جانو، اور یہ سب سے کمزور ایمان کی نشانی ہے۔ یعنی یہ" کم از کم" یہ تو کرو کہ اس سے کراہت کرو تاکہ تم اسے اس برائی میں خود نہ مبتلا ہوجاو یا اس کے عادی نہ ہوجاو اور کم از کم اس کو برا تو سمجھتے رہو۔
ہم نے اس" کم از کم" کو پلو سے باندھ لیا ہے اور ہر معاملے میں بس کم از کم پر تکیہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں ۔ یعنی :

Wednesday, November 26, 2014

Reality Check

ہم مزاج لوگ، ہم آہنگ نظریات، واقعات، مضامین، حکایات ہمارے کمفرٹ زون میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہم بہت بقراط بنتے ہیں، خاص کر جو لوگ ہماری ہر بات پر واہ واہ کرتے ہیں ان سے زیادہ اچھا تو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔

ہمارے علم اور ظرف کا اصل امتحان جب ہوتا ہے، جب ہم کسی متضاد نظریات رکھنے والے شخص کی رائے کو بھی ٹھنڈے پیٹ ہضم کر سکیں۔ 

بہت مشلکل کام ہے، ہے نا

فیس بک ایڈکشن اور اسکا علاج / اعتراف جرم

ڈرگ ایڈکشن کی طرح سوشل میڈیا خاص کر فیس بک بھی ایک خاصہ طاقتور نشہ ہے۔ آپ ارد گرد سے بے خبر اور دور دراز اور بےگانوں سے باخبر رہتے ہیں، لوگوں کے درمیان بیٹھےہوئے ان کے بجائے کسی اور سے باتیں کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ گھر والے پہلے پہل آپ کو ٹوکتے ہیں پھر رفتہ رفتہ آپ پر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ آپ نہ صرف فیس بک پر ہر وقت آن لائن رہتے ہیں بلکہ جب کوئی اور کام بھی کر رہے ہوں تو بھی دھیان موبائل یا ٹیبلٹ کی طرف ہی رہتا ہے کہ کہیں کوئی میسج جواب دینے سے رہ نہ جائے، کوئی نوٹیفیکشن دیکھنے سے رہ نہ جائے، کسی کمنٹ کا جواب دینے سے نہ رہ جائے۔ جیسے اگر کوئی میسج، کمنٹ یانوٹیفیکشن اٹینڈ ہونے سے رہ گیا تو کوئی قیامت شیامت آنے کے امکانات ہوں۔ہر کام کوٹالتے رہتے ہیں کہ ہاں ابھی کرتی ہوں، بس اٹھ رہی ہوں، یہ ایک میسج کا جواب دے دوں، لیکن ایک میسج چیک کرنے کے بعد "من حرامی تے حجتاں ہزار" اور اتنے میں لائٹ چلی جاتی ہے اور آپ کو مزید دوگھنٹے کی چھٹی مل جاتی ہے کوئی اور کام نہ کرنے کی ۔۔۔

Sunday, October 26, 2014

جس تن لاگے وہ تن جانے

ایک" اہل زبان" سیاسی پارٹی کے لمبی زبان والے سیاستدان فرماتے ہیں کہ اگر آج ان کو الگ صوبہ دے دیا جائے تو کل کو افغان مہاجرین بھی صوبہ مانگنے لگیں گے۔ ۔۔ توہمارا اسٹیٹس اس ملک میں افغان مہاجرین کے برابر ہے. یا شاید ان سے بھی کم تر .. انہیں تو اس ملک میں پناہ دی گئی تھی ، مہمان نوازی کی گئی تھی اور ہمارے اجداد تو بنا بلائے ہی چلے آئے تھے ... یہ سوچ کر کہ کیا ہوا جو ان کا علاقہ پاکستان میں شامل نہیں ... وہ تو پاکستان بنانے میں شامل تھے نا ....

Saturday, October 25, 2014

نوحہ گرانِ ماضی

بحثیت قوم ہماری عادات کہن میں سے ایک عادت ہر قسم کے شاندار ماضی کی نوحہ گری بھی ہے ..

کوئی مسلمانوں کی عظمت گزشتہ کی نوحہ گری میں مصروف ہے جب اسلامی خلافت یا سلطنت کی حدیں کہاں سے کہاں تک تھیں تو کوئی آج یورپ و افریقہ کی علمی ترقی کو مسلمان سائنسدانوں کی ایجادات کا آئینہ دکھا رہا ہے کہ تم کیا بیچتے ہو یہ تو ہم تھے جس نے تمہیں سوداگری کی الف بے سکھائی.

Wednesday, October 22, 2014

فن فیصلہ سازی

ہم فیصلہ سازی کے فن سے نا آشنا ہیں۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ بھی والدین پر چھوڑ دیاتھا کہ ہم پیدا ہوں یا نہ ہوں اور پیدا ہوں تو کب ہوں یا کتنی عمر میں ہوں، بچپن میں ہی پیدا ہوجائیں یا کچھ عقل آنے تک انتظار کرلیں۔ واپسی کے لیے بھی انتظار ہے کہ کب "کوئی" ہمیں واپس بلانے کا فیصلہ کرتا ہے۔

بچپن سے لے کر اب تک ہمارے ہر کام کا فیصلہ فزیبلیٹی کی بنیاد پر ہوتا رہا ہے، اسکول جو پاس تھا اور جس میں محلے کے دوسرے بچے پڑھتے تھے اسی میں داخل کرائے گئے کہ آنا جانا انہی بچوں کےساتھ ہوجائے ۔ کالج بھی جو سب سے نزدیک تھا اسی کا انتخاب اس بنا پر کیا گیا کہ اس وقت کراچی کے خراب ترین حالات میں وہاں سے جان بچا کر بھاگنا سب سے آسان تھا۔ یونیورسٹی کی باری آئی تو ابا نے کہا دیکھ لو اتنی دور کا سفر کر سکتی ہو، آ جا سکتی ہوں تو داخلہ لے لو۔ یعنی میرے بھروسے پہ نہ رہنا اپنی فزیبلٹی خود دیکھ لو۔