Friday, March 20, 2020

عورت مارچ 2020

رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف

ماخوذ از عائشہ اظہار
تلخیص، ترجمہ و اضافت : نسرین غوری


خواتین کو برے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ جیسے رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف۔ جیسے اپنا جسم بیچنے والی عورتوں کو رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف پکارا جاتا ہے لیکن ان مردوں کو کوئی ایسے غلیظ ناموں سے نہیں پکارتا جو ان عورتوں کے پاس جاتے ہیں ، ان کا جسم خریدتے ہیں، لطف اٹھاتے ہیں اور اپنی غلاظت ان پر انڈیل کر خود پاک صاف واپس آجاتے ہیں اور بغیر کسی شرمندگی کے نارمل لائف گزارتے ہیں۔ ہمارے آپ کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں، ہنسے بولتے ہیں، مذاق کرتے ہیں۔

Tourism in Sindh and Baluchistan

A Few Humble Suggestions

Being a die hard supporter of promotion of tourism in Southern Pakistan that is Sindh and Baluchistan, and a well traveled person in the region, I believe that South is more diverse than North of Pakistan in terms of tourism that is under explored. South has Sea, Rivers, Lakes, Dams, Islands, Volcanoes, Mountains, Waterfalls, Deserts, Historical and Archaeological sites, Necropolises, Forts, English era and Pakistan movement sites, Religious spots, Sufi Shrines, Folk tales sites, Natural wonders and so on.

Photo Credits & Copy Rights: Writer

Wednesday, March 11, 2020

میرا جسم میری مرضی

میں کیوں اس نعرے کی حمایت کرتی ہوں


میں زندگی کی پانچ دہائیاں مکمل کرنے کے قریب ہوں، میری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی جو نہ بہت زیادہ مذہبی تھا نہ بہت زیادہ آزاد خیال۔ ننھیال میں تعلیم کا رحجان کم تھا لیکن ددھیال میں تعلیم کی کمی نہ تھی۔ دادا، تایا، ابا، چچا بالترتیب، پرنسپل،پروفیسر، ہائی اسکول ٹیچر اور پرائمری اسکول ٹیچر تھے۔ اور اکلوتی پھپھو ساٹھ یا ستر کی دہائی میں کراچی یونیورسٹی میں ہاسٹل میں رہ کر لائبریری سائنس میں ماسٹرز کرچکی تھیں۔بعد ازاں وہ پاکستان نیوی کی سینٹرل لائبریری میں لائبریرین مقرر ہوئیں۔ سب سے چھوٹے چچا انجینئر بنے۔

Sunday, December 29, 2019

یوسف خان عرف دلیپ کمار


اداکار دلیپ کمار کی عظمت کا اعتراف ایک دنیا کرتی ہے لیکن دلیپ کمار کیوں دلیپ کمار ہے اس کا اندازہ ان کی سوانح حیات کو پڑھ کر ہوتا ہے۔ پشاور میں پیدا ہونے والا ایک غیور، شریف اور وفادار پٹھان  کتنی محنت، مشقت اور کمٹمنٹ کے سہارے اس مقام کو پہنچا ہے کہ آج پاک وہند کا ہر چھوٹا بڑا اداکار اور فلم بین اس کا نام عزت سے لیتا ہے، بڑے بڑے اداکار اس کی فلموں کے ری میک میں کام کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور پھر اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان سے غلطی ہوئی جو ان کے کردار کو ری پلے کیا، ان کا کوئی مقابل نہیں کوئی ثانی نہیں۔

Wednesday, November 20, 2019

سیکشن 375


ریپ  انسانی رویوں میں بدترین رویہ ہے۔ ریپ قتل سے بھی زیادہ گھناونا جرم ہے۔ مقتول تو ایک بار ہی مر کر مکت ہوجاتا ہے چاہے اس کے چاہنے والے کتنی ہی تکلیف سے گزریں۔ لیکن ریپ کا شکار انسان نہ زندوں میں رہتا ہے نہ مردوں میں۔ وہ ساری عمر کے لیے ایک نارمل ہنستی بستی زندگی گزارنے سے محروم ہوجاتا ہے۔نہ خود نارمل زندگی گزار سکتا ہے نہ اس سے جڑے ہوئے، اس سے محبت کرنے والے یا اس کی محبت کے منتظر لوگ ساری عمر نارمل ہوپاتے ہیں۔ 

Thursday, November 14, 2019

بارے ٹی وی و فلم

ہمارے پی ٹی وی کے لیجنڈز فلموں میں ناکام رہے۔ طلعت حسین، راحت کاظمی، عثمان پیرزادہ، آصف رضا میر، جمشید انصاری، شفیع محمد، فردوس جمال، شکیل، قوی۔ قوی جیسا پی ٹی وی کا لیجنڈ اور سینئر اداکار فلموں میں مسخرے کے کردار تک محدود رہا۔ کوئی ایک فلمی کردار ایسا نہیں جو قوی کے نام سے یا جس سے قوی فلموں میں پہچانے جاسکیں۔ حالانکہ کیریکٹر ایکٹر کے طور پر قوی فلموں میں کمال کرسکتے تھے۔ ان کے مقابلے میں رنگیلا، منور ظریف اور لہری فلم کے اداکار تھے لہذہ کئی ایسی فلمیں ہیں جن میں ان تینوں کے کردار ہی فلم کی پہچان بنے۔  صرف ایک جاوید شیخ ٹی وی سے فلموں میں گیا اور کامیاب رہا۔ طارق عزیز تو خیر اداکار تھے ہی نہیں پتا نہیں کیا کرنے گئے تھے فلموں میں۔

Tuesday, October 29, 2019

من چلے کا سودا :ایک ٹائم لیس پیس آف آرٹ

اب آپ کہیں گے کہ یہ یہ کونسا وقت ہے اس قدیم ڈرامے پر تبصرہ لکھنے کا۔ تو بھائی بندہ جب دیکھے گا ڈرامہ تب ہی تو اس پر تبصرہ لکھے گا۔ اب جس وقت یہ ڈرامہ نشر ہوا تھا اس وقت تو ہمارے دودھ کے دانت ہی ٹوٹے تھے آلموسٹ۔ کچی عمر میں اتنے بڑے بڑے فلسفے سمجھ کس کو آتے ہیں۔ اور اس وقت ٹی وی بھی کہیں کہیں کسی کے گھر ہوتا تھا۔ یاد ہے کہ ٹی وی پورے محلے میں بس ہمارے پڑوس میں تھا اور جس دن یہ ڈرامہ آتا تھا ساری خواتین اپنے فالتو کام نمٹانے چل دیتی تھیں ایک صرف ہمارے پڑوسی تھے جو اسے بہت غور سے دیکھتے تھے اور گاہے بگاہے سر ہلاتے جاتے اور خود کلامی کیے جاتے تھے۔ ہماری تو اس وقت یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اس میں کیا سمجھ آیا ہے۔