Friday, March 20, 2020

عورت مارچ 2020

رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف

ماخوذ از عائشہ اظہار
تلخیص، ترجمہ و اضافت : نسرین غوری


خواتین کو برے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ جیسے رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف۔ جیسے اپنا جسم بیچنے والی عورتوں کو رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف پکارا جاتا ہے لیکن ان مردوں کو کوئی ایسے غلیظ ناموں سے نہیں پکارتا جو ان عورتوں کے پاس جاتے ہیں ، ان کا جسم خریدتے ہیں، لطف اٹھاتے ہیں اور اپنی غلاظت ان پر انڈیل کر خود پاک صاف واپس آجاتے ہیں اور بغیر کسی شرمندگی کے نارمل لائف گزارتے ہیں۔ ہمارے آپ کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں، ہنسے بولتے ہیں، مذاق کرتے ہیں۔

کتنی حیران کن بات ہے کہ اپنا جسم بیچنے والی خواتین کو رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف پکارا جاتا ہے لیکن ان کے گاہک مردوں کے لیے ایسا کوئی نام نہیں۔کوئی بھی سرکاری ملازم، بزنس مین، کارخانہ دار، دکان دار ، کوئی بھی عام عزت دار ، "شریف" شہری جو ایک طوائف کے پاس جانا اپنا حق سمجھتا ہے۔ اسے ایسا کوئی نام نہیں دیا جاتا۔

بنا شادی ماں بن جانے والی عورتوں کو بھی رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف پکارا جاتا ہے اور ان کے بچوں کو حرامی، ناجائز، غلاظت لیکن ان مردوں کا ایسا کوئی نام ابھی تک نہیں رکھا گیا جو ان عورتوں کے پاس جاتے ہیں، ان پر زور زبردستی کرتے ہیں، جسمانی لذت حاصل کرتے ہیں اور ان ناجائز حرامی بچوں کے بیج ان کے جسم میں بو کر انہیں زمانے کے رحم کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔

جو خاتون ان کے بنائے اور بتائے ہوئے اصولوں پرچلنے سے انکار کردے اسے رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف پکارا جاتا ہے۔ اگر وہ کسی کے رشتے سے انکار کردے تو اس پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، ناک کاٹ دی جاتی ہے ۔ اس ظالم مرد کے لیے ایسا کوکوئی نام ایجاد نہیں ہوا۔ لیکن ایک خاتون جو اپنے گھر کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے باہر نکلتی ہے ،یا آگے بڑھتی اسے رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ 

ایک طوائف کا جنازہ پڑھانا حرام ہے کیونکہ وہ رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف ہے۔ لیکن اس کا جسم نوچنے والے مرد اعلیٰ و ارفعٰ ہیں کہ ان کا جنازہ بھی دھوم دھام سے پڑھایا جاتا ہے اور ان کی مغفرت کی دعا کروانے کےلیے بڑے سے بڑا مولوی تیار ہوجاتا ہے۔

سڑکوں پر، گلیوں میں، گھر میں، اسکولوں میں اور جاب پر ہر جگہ عورت کو ہراساں کیا جاتاہے، اس کی عزت پر حملہ کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ وہ گھر سے ہی کیوں نکلی یہ سراسر اس عورت کا قصور ہے۔ اس نے ہی بھڑکدار لباس سے مرد کو متوجہ کیا لہذہ وہ رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف ہے۔ لیکن ان مردوں کو کچھ نہیں کہا جاتا جو اپنی نیتیں ، نظریں اور ہاتھ قابو میں نہیں رکھ سکتے ۔

چھوٹی چھوٹی بچیوں کا ریپ کیا جاتا ہے، ان کے گھروالوں کو شرمندہ و مجبور کیا جاتا ہے، معاشرہ ان سے نفرت کرتا ہے، کوئی مرد ایسی لڑکی سے شادی پر تیار نہیں ہوتا اور پھر جب زندہ رہنے کے لیے اسے اپنا جسم بیچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے تو اسے رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف کہہ کر پکارتے ہیں۔ 

اگرایک خاتون معاشرے کے غلط رسم و رواج کے خلاف آواز اٹھاتی ہے یا ان کے مطابق زندگی گزارنے سے انکار کرتی ہے یا اپنی سوچ کا آزادانہ اظہار کرتی ہے تووہ رنڈی، گشتی، آوارہ، بدچلن، طوائف ہے۔ لیکن کوئی بھی مرد جو اسے ہراساں کرتا ہے، اس پر حملہ کرتا ہے یا اسے ورغلاتا ہے، اس سے افئیر چلاتا ہے اور اپنی چند لمحوں کی لذت کے لیے اسےاستعمال کرتا ہے اس کا کوئی نام نہیں رکھتا۔ کوئی اسے گندے ناموں سے نہیں پکارتا۔

خواتین کو قربانی کا بکرا بنانے کے لیے بہت سے خوشنما الفاظ اور تصورات ہیں، خاندان کی عزت، حیا، کردار تاکہ انہیں ان خوش نما تصورات کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے۔ لیکن مردوں کی ہوس کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ نہیں۔ اگر ایک مرد کے چھو لینے سے عورت ناپاک ہوجاتی ہے تو اس کے اپنے ہاتھ ناپاک تھے، ناپاک ہاتھوں اور ناپاک نیت سے چھونے پر ہی عورت ناپاک ہوتی ہے۔

جب مردوں کو کسی دوسرے مرد کو گالی دینی ہوتی ہے تو بھی اس کے گھر کی خواتین کے لیے ہی غلیظ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی زبان میں ہوں لیکن سر بازار گالیاں ماں، بہن کا نام لے کرہی دی جاتی ہیں ۔ گویا مرد کی اپنی تو کوئی عزت ہے نہیں ساری عزت عورت نے اپنے کاندھوں پر اٹھائی ہوئی ہے۔ لہذہ اگر مرد کو ذلیل کرنا ہے تو اس کے گھر کی عورتوں کو ریپ کردو۔ دو مردوں کا جھگڑا ہوگیا عورت کو ونی کردو، گھر کے مرد سے کسی مرد کا قتل ہوگیا، گھر کی کسی عورت کا بھی قتل کردو، تاکہ اسے عزت کے نام پر قتل قرار دیا جاسکے۔ کسی زور آور کے سامنے آنے سے خود ڈرتے ہیں تو گھر کی خواتین کو قران یا دوپٹے دے کر اس کے گھر معافی مانگنے بھیج دو کہ وہ اس کے قدموں میں بیٹھ کر تمہیں معافی دلوا ئیں۔

عورت عزت نہیں انسان ہے۔ اور اس کی اپنی بھی عزت ہے۔ اگر مرد ہو تو عورت کا کاندھا چھوڑ کر اپنی عزت کے اسباب خود پیدا کرو ۔ عورت کو عزت و بے عزتی کا معیار بنانے کے بجائے عورت کی عزت کرنا سیکھو۔خواتین کو اس دہرے معیار کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اپنے خلاف استعمال ہونے والی ہر زبان اور ہر روئیے خلاف ہر ممکن آواز اٹھائیں۔ آپ یہ کر سکتی ہیں۔
👩👧👰

عورت مارچ 2019 

عورت مارچ 2019 مکرر ارشاد

میرا جسم میری مرضی:  میں کیوں اس نعرے کی حمایت کرتی ہوں