Friday, July 24, 2015

گڈے گڑیا کا کھیل


میں بہت چھوٹی سی تھی، مجھےگڑیا سے کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ مگر ہوتا یہ تھا کہ میں سارا وقت گڑیوں میں لگی رہتی تھی۔ پڑھائی پر بھی دھیان کم دیتی تھی اور رات دیر تک گڑیوں سے کھیلتی اور انہیں ایسا ہی پھیلا ہوا چھوڑ کر سو جاتی تھی۔ امی مجھے گڑیوں سے کھیلنے سے باز رکھنے کے لیے کہتیں کہ رات کے وقت گڑیا کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ میں وجہ پوچھتی تو کہتیں کہ رات کو گڑیا کو ہاتھ لگانے سے گڑیا جن بن جاتی ہیں اور بچوں کو کھا جاتی ہیں ۔ جن ، چڑیلوں اور پچھل پیریوں سے ہمیں اس وقت بہت ڈر لگتا تھا ۔

ہمارے پڑوس میں دھوبی فیملی رہتی تھی اور ابھی تک رہتی ہے۔لیکن اب وہ لوگ دھوبی کا کام چھوڑ چکے ہیں۔ اس وقت انکے گھر میں دھوبی گھاٹ بنا ہوا تھا اور پانی اسٹور کرنے کے لیے بڑی بڑی ٹنکیاں بنی تھیں۔ پہلے ایک بڑی ٹینکی، اسکے آگے چھوٹی اور پھر اسکے بعد دھوبی گھاٹ۔ ہم بچہ لوگ کی رسائی چھوٹی ٹینکی تک تو ہو جاتی لیکن بڑی ٹینکی میں جھانکنے کے بھی لائق ابھی کسی کا بھی قد نہیں ہوا تھا۔ کبھی جب ٹنکیاں خالی ہوتیں تو ہم سارے کسی نہ کسی طرح بڑی ٹنکی میں اتر جاتے ، خوب کھیلتے ، شور مچاتے ، لیکن باہر نہیں آپاتے۔ باہر آنے کے لیے کسی بڑے کی مدد لینی پڑتی ۔

ہمیں رات کو اکثر خواب آتے کہ رات کا وقت ہے اور ہم اس بڑی والی ٹینکی میں ہیں ، ہمارے ارد گرد ہماری ساری گڑیائیں ہیں جو اب جن اور چڑیلیں بنی ہوئی ہیں ۔ ہم اس سے نکلنا چاہ رہے ہیں لیکن وہ خوفناک چہروں اور بڑے بڑے دانتوں والے جن اور چڑیلیں ہمیں پکڑ کر واپس اسی بڑی ٹینکی میں گھسیٹ رہے ہیں۔ یہ خواب اب بھی کبھی کبھی نظر آجاتا ہے۔ اب گھر میں فاطمہ کا گڈا جسے وہ اپنا بھائی محمد علی کہتی ہیں ہوتا ہے۔ اگر ہمیں رات کو اکیلے میں نظر آجائے تو ہماری کوشش ہوتی ہے اس سے نظریں نہ ہی ملائی جائیں تو اچھا ہے۔

ہم بچوں کو سدھارنے کے لیے یا اگر وہ تنگ کر رہے ہوں تو ان سے اپنی جان چھڑانے کے لیے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ یہ سوچے بنا کہ اس بات کا بچے کے دماغ پر کیا اثر ہوگا ، وہ اس چھوٹی سی بات پر کیا محل تعمیر کر لے گا۔ بچوں کا پالنا اور تربیت گڈے گڑیا کا کھیل نہیں ہے۔