Friday, July 24, 2015

قصہ ہماری بہادری کا


ویسے تو ہم کافی بہادر ہیں لیکن ایک بار ہماری بہادری پر بھی برا وقت آپڑا تھا۔ ہم مصر میں ایک ایسے ہاسٹل میں رہتے تھے جو کسی زمانے میں روسی انجینئرز کے لیے بنایا گیا تھا جو قاہرہ میں کسی پراجیکٹ کی تزئین و آرائش پر کام کر رہے تھے۔ ہم وہاں دیگر پانچ خواتین کے ساتھ مقیم تھے، ان میں سے دو بوسنیا اور ایک البانوی تھیں اور باقی کی دو یوگنڈا سے تھیں۔

وہاں وقت کی فراوانی تھی اور کرنے کو کچھ خاص ہوتا نہیں تھا، بندہ کتنا پڑھے آخر ۔۔۔ تو ہم لوگ وقت گذارنے کے لیے دنیا بھر کی انگریزی موویز ڈاونلوڈ کرتے اورپھر اپنے لیپ ٹاپ پر شام کو یا رات کو شو چلاتے اور مل کر دیکھتے۔ تینوں یورپی خواتین کو ہارر موویز دیکھنے کا شوق تھا۔ اللہ جانے اس ایک سال میں ہم نے کتنی ہارر موویز دیکھی ہونگی ۔۔ نام تو یاد نہیں لیکن HBO اور اسٹار موویز وغیرہ پر جتنی بھی ہارر موویز نظر آتی ہیں زیادہ تر دیکھی ہوئی نکلتی ہیں۔ 

خیرجناب تو ہوا یہ کہ ہمیں خوب خوب ہارر موویز دکھانے کے بعد ساری محترمائیں ایک مہینے کی چھٹیوں پر اپنے اپنے گھر ٹُر گئیں اور ہم اس ہانٹڈ ہاوس میں کلے کلے رہ گئے۔ ایک تو ہم اکیلے دوسرے انسٹی ٹیوٹ سے بھی فارغ کہ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ۔۔ اور اتنی ساری ہارر موویز کی بازگشت ، جن کا گشت دماغ میں جاری و ساری رہتا، رات کو باتھ روم  جاتے تو ایک بار دل کرتا کہ اندر باتھ ٹب میں جھانک کر اطمینان کر لیں۔ یا کچن سے واپسی پر لائیٹ بند کرتے ہوئے لگتا کہ ابھی کسی نے پیچھے سے کندھے پر ہاتھ رکھا کے رکھا ۔۔ ہمیں پتہ تھا کہ موویز موویز ہی ہوتی ہیں، اصل میں کچھ نہیں ہوتا، اور ہم تو کسی ذاتی تجربے کے نا ہونے کے سبب ان چیزوں پر یقین بھی نہیں رکھتے، لیکن بچپن سے سکھایا ہوا خوف کہیں نہ کہیں بندے کو ڈبوہی دیتا ہے۔


تو ڈر بندے کے اندر ہوتا ہے ۔۔ باہر سے ایک تحریک ملنے کی دیر ہے بس اپنا کام دکھا جاتا ہے۔