اداکار دلیپ کمار کی عظمت کا اعتراف ایک دنیا کرتی ہے لیکن دلیپ کمار کیوں دلیپ کمار ہے اس کا اندازہ ان کی سوانح حیات کو پڑھ کر ہوتا ہے۔ پشاور میں پیدا ہونے والا ایک غیور، شریف اور وفادار پٹھان کتنی محنت، مشقت اور کمٹمنٹ کے سہارے اس مقام کو پہنچا ہے کہ آج پاک وہند کا ہر چھوٹا بڑا اداکار اور فلم بین اس کا نام عزت سے لیتا ہے، بڑے بڑے اداکار اس کی فلموں کے ری میک میں کام کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور پھر اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان سے غلطی ہوئی جو ان کے کردار کو ری پلے کیا، ان کا کوئی مقابل نہیں کوئی ثانی نہیں۔
Sunday, December 29, 2019
Wednesday, November 20, 2019
سیکشن 375
ریپ انسانی رویوں میں بدترین رویہ ہے۔ ریپ قتل سے بھی زیادہ گھناونا جرم ہے۔ مقتول تو ایک بار ہی مر کر مکت ہوجاتا ہے چاہے اس کے چاہنے والے کتنی ہی تکلیف سے گزریں۔ لیکن ریپ کا شکار انسان نہ زندوں میں رہتا ہے نہ مردوں میں۔ وہ ساری عمر کے لیے ایک نارمل ہنستی بستی زندگی گزارنے سے محروم ہوجاتا ہے۔نہ خود نارمل زندگی گزار سکتا ہے نہ اس سے جڑے ہوئے، اس سے محبت کرنے والے یا اس کی محبت کے منتظر لوگ ساری عمر نارمل ہوپاتے ہیں۔
Labels:
Behavior,
Ethics & Values,
Gender,
Hypocrisy,
Society,
Sociograph
Thursday, November 14, 2019
بارے ٹی وی و فلم
ہمارے پی ٹی وی کے لیجنڈز فلموں میں ناکام رہے۔ طلعت حسین، راحت کاظمی، عثمان پیرزادہ، آصف رضا میر، جمشید انصاری، شفیع محمد، فردوس جمال، شکیل، قوی۔ قوی جیسا پی ٹی وی کا لیجنڈ اور سینئر اداکار فلموں میں مسخرے کے کردار تک محدود رہا۔ کوئی ایک فلمی کردار ایسا نہیں جو قوی کے نام سے یا جس سے قوی فلموں میں پہچانے جاسکیں۔ حالانکہ کیریکٹر ایکٹر کے طور پر قوی فلموں میں کمال کرسکتے تھے۔ ان کے مقابلے میں رنگیلا، منور ظریف اور لہری فلم کے اداکار تھے لہذہ کئی ایسی فلمیں ہیں جن میں ان تینوں کے کردار ہی فلم کی پہچان بنے۔ صرف ایک جاوید شیخ ٹی وی سے فلموں میں گیا اور کامیاب رہا۔ طارق عزیز تو خیر اداکار تھے ہی نہیں پتا نہیں کیا کرنے گئے تھے فلموں میں۔
Labels:
Sociograph
Tuesday, October 29, 2019
من چلے کا سودا :ایک ٹائم لیس پیس آف آرٹ
اب آپ کہیں گے کہ یہ یہ کونسا وقت ہے اس قدیم ڈرامے پر تبصرہ لکھنے کا۔ تو بھائی بندہ جب دیکھے گا ڈرامہ تب ہی تو اس پر تبصرہ لکھے گا۔ اب جس وقت یہ ڈرامہ نشر ہوا تھا اس وقت تو ہمارے دودھ کے دانت ہی ٹوٹے تھے آلموسٹ۔ کچی عمر میں اتنے بڑے بڑے فلسفے سمجھ کس کو آتے ہیں۔ اور اس وقت ٹی وی بھی کہیں کہیں کسی کے گھر ہوتا تھا۔ یاد ہے کہ ٹی وی پورے محلے میں بس ہمارے پڑوس میں تھا اور جس دن یہ ڈرامہ آتا تھا ساری خواتین اپنے فالتو کام نمٹانے چل دیتی تھیں ایک صرف ہمارے پڑوسی تھے جو اسے بہت غور سے دیکھتے تھے اور گاہے بگاہے سر ہلاتے جاتے اور خود کلامی کیے جاتے تھے۔ ہماری تو اس وقت یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اس میں کیا سمجھ آیا ہے۔
Labels:
Abstract,
Common Sense,
Psychology
Sunday, August 11, 2019
Wednesday, August 7, 2019
Voices from Chernobyl
A fantastic but depressing, very depressing book simultaneously, very difficult to go through. But it gives different points of view and insights from the acute victims to the liquidators, firemen, soldiers, teachers, students, housewives, resettlers, camera recorders, photographers, writers, journalists, school children, young children. How they were affected and how they perceived the incident, and its aftermaths, its causes and people's behavior towards them and theirs towards those people.
Friday, July 26, 2019
"بنت حوا ہوں میں، یہ مرا جرم ہے"
تبصرہ:
ڈاکٹر مبارک علی پاکستان کے اکلوتے نہیں تو اکلوتے مشہور تاریخ خواں ہیں۔ [تاریخ دان کی اصطلاح غلط ہے۔ "دان" بنانے والے کو کہا جاتا ہے۔ اور "خواں" بیان کرنے والے کو۔] جنہوں نے تاریخ خصوصاً برصغیر کی تاریخ پر کئی کتب لکھی ہیں اور خود فن تاریخ پر بھی۔ اس کتاب میں ڈاکٹر مبارک علی نے مختلف مذاہب، معاشروں اور تہذیبوں میں خواتین کے مقام اور حیثیت کا تاریخی جائزہ لیا ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)