اپنی زبا ن جو ہم بحق پیدائش استعمال کرنے کے عادی ہیں ، الفاظ کیسے بنے ، اصطلاحات کہاں سے آئیں اور جملے کی تعمیر میں کون سی خوبیاں اور خامیاں مضمر ہیں ان پر تو ہم کبھی غور ہی نہیں کرتے ۔ یہ تو ہمیں اپنی اماں سے ورثے میں ملی ہے مطلب باپ کا مال ہے جیسے چاہے خرچ کرو۔ لیکن جب کہیں اسے ٹرانسلیٹنے کا موقع آئے تو عام سے الفاظ خاص بن جاتے ہیں ۔ اور خاص الفاظ بہت آم ۔
عام سے جملوں کی تعمیر کی خوبیاں اور خرابیاں آپ سے کوئی پوچھ لے تو آپ منڈی جھکا کر دل کے آئینے میں تصویر یار دیکھنے میں مگن ہو جاتے ہیں کہ کبھی اردو گرامر پر تو دھیان دیا ہی نہیں تھا ۔ آپ کے اپنے افعال ماضی، حال میں افعال موذی بن کر آپ کو ڈرانے لگتے ہیں ۔
ترجمہ کرنے کا کام ہے بڑے مزے کا ۔ کبھی کسی اردو کے ایک شعر کا انگریزی میں ترجمہ کر کے دیکھئے ۔ وہی حال ہوگا جو مسٹر جیدی کا "دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے" کی زبانِ فرنگ میں ترجمانی پر ہوا تھا ۔
"او مائی اسٹوپڈ ہارٹ، واٹ ہےس ہے پنڈ ٹو یو
واٹ از دا میڈیسن فار دس پےن"
میں نے ایک کثیر اللغات ویب سائیٹ کے فیس بک گروپ پر مختلف زبانوں کے الفاظ اور جملوں کےاردو ترجمے کیے تھے۔ وہاں ترجموں کے دوران بعض معمولی جملوں کو اردو میں منتقل کرنے میں اپنی زبان اور اپنی معاشرت کو محسوس کیا ۔ ان روز مرہ کاموں ، الفاظ، جملوں اور مظاہر کو ری ڈسکور کیا جن کی اس سے پہلے کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اور یہ جانا کہ بہت سے مقامات پر لفظ بہ لفظ ترجمہ مفہوم تبدیل کردیتا ہے یا اس اظہاریے کی لطافت ختم کر دیتا ہے۔ ہر زبان میں اظہار کا اپنا سلیقہ ہے جسے لفظ بہ لفظ ترجمے سے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل نہیں کیا جاسکتا۔ بات کا مفہوم زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
اردومحفل کے مطابق اس ہفتے گوگل کی سالانہ ڈیویلپر تقریب گوگل آئی او 2015 کے موقع پر گوگل ٹرانسلیٹ ٹیم نے مختلف زبانوں میں مشینی ترجمے کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے دس روزہ کمیونٹی چیلنج کا اعلان کیا ہے جس میں ہم نے بھی حسب توفیق اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ اگر آپ بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو بسم اللہ کر کے ابتداء کریں ۔۔ لیکن ٹھہریے پہلے تھوڑی مسکراہٹ سے منہ میٹھا تو کرتے جائیے ۔