اماں تو چلی گئیں پر سب سے مشکل کام تھا کہ فاطمہ کو کیسے بتایا جائے اور سمجھایا جائے۔ ایک دن ابو نے پہلے بڑے دادو کو دادی پھپھو کے گھر سے آسمان پر پہنچایااور ستارہ بنا دیا ۔ اسطرح بڑے دادو کوچ کرنےکے تقریباً دو سال بعد ستارہ بن گئے ۔ بڑا والا ستارہ، جو ہماری چھت پر مغرب کی سمت نظر آتا ہے۔
پھر ابو نے اماں کو ستارہ بنانے کی کوشش کی تو آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر آئے،
" کیا ہماری اماں اب کبھی واپس نہیں آئیں گی ؟" ابو اماں کو ستارہ بناتے بناتے رک گئے۔
دن گزرتے رہے پر اماں "بڑے ہسپتال" سے واپس ہی نہیں آئیں ، جہاں "ڈاکٹر" کسی کو "مریض " سے ملنے ہی نہیں دیتے۔ سب نے فاطمہ کے سامنے اماں کا نام لینا چھوڑ دیا کہ یاد کرے گی تو جانے کی یا بلانے کی ضد کرے گی، کیسے سنبھالیں گے ۔
ایک دن دریافت کیا، "فاطمہ بڑے دادو کونسا ستارہ ہیں"
فرمایا "وہ بڑے والا "
پھر خود ہی ،،، "اماں بھی ستارہ بن گئی ہیں "۔
ہم حق دق ،، پوچھا ، "ہیں ،، کونسا والا" ،
فرمایا "وہ ادھر ہوتی ہیں"،
جنوب کی سمت اشارہ کرتےہوئے "ادھر"
"پر ابھی تو وہاں کوئی ستارہ نہیں" دریافت کیا
"ہاں وہ دیر سے آتی ہیں"
"دیر سے کیوں"
"جب دادو [میرے ابو] آجاتے ہیں نا, تب آتی ہیں اماں"
فاطمہ نے تو ایڈجسٹ کرلیا ، جینا سیکھ لیا اماں کے بغیر پر ،،،
بیٹھے بیٹھے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بے ترتیبی، یہ ہڑبونگ، یہ سب کچھ بس عارضی ہے، امی واپس آجائیں گی تو پھر سے پرانی ڈگر پر زندگی رواں دواں ہو جائے گی۔
پھر دوسرے ہی لمحے حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ اب یہی بے ترتیبی نئی ترتیب ہے، اب یہی زندگی ہے۔