Tuesday, June 23, 2015

ہم نے ڈرائیونگ سیکھی



ہوا یوں کہ ہم صرف ٹرائی کرنے گئےتھے پر افسری ہمیں واقعی میں مل گئی ۔ کچھ دن تو پبلک ٹرانسپورٹ پر دفتر آنا جانا کیا پھر افسری میں فرق پڑنے لگا ، ابا کی ، کیوں کہ ہم تو پبلک ٹرانسپورٹ ایکسپرٹ ہوچکے تھے اب تک یونیورسٹی کے دھکے کھا کھا کر ، ہمارا گھر شہر کے ایک کونے میں اور یونیورسٹی شہر کے دوسرے کونے میں، پھردفتر تیسرے کونے میں ۔ ہم اتنے ایکسپرٹ ہو چکے تھے کہ دروازے تک فل بس میں اتنے آرام سے سما جاتے تھے جیسے بھرے پیٹ میں پانی اپنا راستہ بنا ہی لیتا ہے۔ ہم تو مزے سے بس سے آتے جاتے تھے ، پر ابا کا خیال تھا کہ افسر افسر ہوتا ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ سے دفتر جانے سے افسر کا "رباب" کم ہوتا ہے۔ سو گاڑی ہونی چاہیے، پر کیا کرتےکہ گھر میں کسی کو بائیک کے علاوہ کچھ بھی چلانا نہیں آتا تھا۔ سو فیصلہ کیا گیا کہ ہم کسی ڈرائیونگ اسکول سے پہلے ڈرائیونگ سیکھیں پھر گاڑی کا توڑ جوڑ کیا جائے گا۔ گاڑی ہمارے لیےہوگی تو سیکھنا بھی ہمی کو ہوگا۔

سو ہم نے ایک ڈرائیونگ اسکول سے رابطہ کیا ۔ ہمیں پتہ نہیں کیوں خواتین اساتذہ، خواتین افسران اعلیٰ اور خواتین انسٹرکٹرز سے اللہ واسطے کی چڑ ہے، سو ہم نے انچارج سے کہہ دیا کہ ہم کسی خاتون سے ڈرائیونگ نہیں سیکھیں گے۔ انہوں نے ہمیں ایک خانصاحب بطور انسٹرکٹر الاٹ کر دیے۔ انہوں نے ہمیں ایک عدد کالی ٹیکسی ٹائپ کار میں ٹرک چلانا سکھانا شروع کیا۔ ایک دو دن حیدری کی خالی گلیوں میں گاڑی چلوائی پھر حیدری کی مین روڈ پر لے آئے۔ اب ہم شام کے پانچ بجے حیدری کی شدید رش والی سڑک پر ڈرائیونگ سیکھ رہے تھے۔ کبھی ہماری گاڑی برابر والی گاڑی پر چڑھنے کی کوشش کرتی جسے خانصاحب اپنے کنٹرول روم سے قابو کرتے ، ایک فالتو بریکوں کی جوڑی کا جگاڑ پسنجر سیٹ کے سامنے کیا گیا تھا تاکہ ایمرجنسی میں کسی حادثے سے بچا اور بچایا جا سکے۔مڑتے ہوئے ہم انڈیکیٹر دینا بھول جاتے، اگر انڈیکیٹر دے دیتے تو واپس کرنا بھول جاتے [انڈیکیٹر کو واپس اپنی جگہ لانا پڑتا تھا، باوا آدم کے زمانے کی کار تھی] اور ٹک ٹک کی آواز آتی رہتی۔ خانصاحب گرم ہوکر پوچھتے یہ آاواز کہاں سے آرہا ہے، ہم عرض کرتے کہ" ہیں ،،، انڈیکیٹر میں سے"۔ آگے سے فرماتے " آپ کی گاڑی میں ایک بندہ انڈیکیٹر بند کرنے کے لیے الگ سے بیٹھا ہوگا، بند کریں اسکو" ہم بوکھلا کر بند کرتے تو دائیں والا بند ہوکر بائیں والا چل پڑتا۔ اللہ اللہ کر کے ایک مہینہ گذرا اور ہماری تربیت پوری ہوئی ۔ ہمیں یاد نہیں کہ ایک دن بھی ہماری گاڑی ہموار اور روانی سے چلی ہو۔ پر یہ ہمارا درد سر تھا انسٹی ٹیوٹ اور انسٹرکٹر کا نہیں ۔۔ ہم ہی نکمے تھے۔

پھر یوں ہوا کہ گاڑی کا جگاڑ کرتے کرتے چھ سات ماہ بیت گئے، نئی گاڑی کی ابھی افسروں کی اوقات نہیں تھی ، سو ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی لینے کا فیصلہ ہوا۔ ابا کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کے لیے ایف ایکس ایک مناسب گاڑی ہے۔ ہم بضد کہ نہیں ، لیں گے تو ہائی روف ، کیوں کہ ہمیں پسند نہیں تھا کہ جب پورا خاندان کہیں سیر و تفریح کو جائے تو دو بندے ساتھ میں بائیک پر لٹک کر جائیں ۔ تو بس ایسی گاڑی لی جائے گی جس میں پورا خاندان ایک ساتھ بیٹھ سکے، ورنہ ہم بس سے ہی ٹھیک ہیں ۔ ابا کو ماننا پڑا۔ 

ابا نے گاڑی لینے سے پہلے پوچھا چلا لوگی نا، ہم نے پورے اعتماد سے اثبات میں جواب دے دیا، ہم اپنے خیال میں ماہر ڈرائیور بن چکے تھے ، چھ ماہ پہلے ۔ اب گاڑی آگئی ابا کا چوکیدار چلا کر ہمارے گھر لے آیا اور گاڑی چھوڑ اپنے گھر کو سدھارا۔ اب ابا نے کہا کہ ایسا کرو بھائی کو ساتھ لے جاو اور سی این جی ڈلوا کر لے آو، سی این جی اسٹیشن گھر سے چار کلو میٹر دور تھا ۔ خیر گھر سے چلے، پہلے گئیر میں چلے ہی چلے جارہے ہیں، گاڑی دہائیاں دے رہی ہے پر گئیر بدلنے سے تو گاڑی ضرورت سے زیادہ ہی فری ہوجاتی ہے، سو پہلا گئیر ہی ٹھیک ہے۔ آگے چلے بنارس پر ایک ویگن میں گھس گئے، ویگن والے خانصاحب لال پیلے ہوتےہوئے اترے کہ کون ہے مائی کا لال جس نے انکی گاڑی کو ٹکر ماری ہے، ہمیں دیکھا، برابر میں بھائی کو براجمان دیکھا ، نسوار زور سے زمین پر تھوکا اور بھائی سے مخاطب ہوکر کہا "خود چلاونا گاڑی، لڑکی سے کیوں چلواتا اے"۔ بھائی بے چارہ خاموش کہ اسکو تو ڈرائیونگ آتی ہی نہیں ۔ مزید آگے چلے تو عبداللہ کالج کے آگے ایک اسپیڈ بریکر تھا، نظر ہی نہیں آیا، گاڑی اچھلی اور ساتھ ہم بھی ، دونوں کا سر پھوٹا اور پچھلا بمپر زمین بوس ہوگیا، اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا۔ اللہ اللہ کرکے فیول ڈالا اور گھر واپس پہنچے۔ 

اب ہماری ڈرائیونگ کا تو پول کھل چکا تھا، سو اب گاڑی ہے تو اسے کون چلائے، اب ہم نے سینئیر انسٹرکٹر بن کر بھائی اور ابا کو "گاڑی" چلانی سکھائی ، وہ دونو ں پہلے سے روڈ ماسٹر، بائیک چلاچلا کر، سو دو دن میں ہی سیکھ گئے۔ جب وہ سیکھ گئے تو انہوں نے ہمیں ریفریشر کورس کروانا چاہا۔ ہم اپنے گھر سے نکلتے اور اورنگی ٹاون کی پہاڑیوں کے دامن میں گاڑی چلاتے ۔ ایک دن گاڑی راستے میں بند ہوگئی، اب اسٹارٹ کریں، گاڑی اٹھائیں تو اٹھنے کے بجائے بند ہوجائے، بھائی اور ہم زچ ہوگئے ، پر گاڑی نہ اٹھے، بھائی ہمیں ہٹا کر ڈرائیونگ سیٹ پر آیا، گاڑی نیوٹرل کی، اسٹارٹ کی اور پہلے گئیر میں ڈالی، کم بخت چل پڑی ۔ پتہ چلا کہ ہم دوسرے گئیر میں گاڑی اٹھا رہے تھے وہ بھی ایک گڑھے سے ، بھلا کیوں کر اٹھتی۔

اس گاڑی کے ساتھ اپنے مسئلے مسائل بھی کافی تھے جو ہماری ناتجربہ کاری سے ضرب کھاگئے تھے، لہذہ ڈرائیو کرتے ہوئے ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ گاڑی بند ہوئی ہے تو اسکا اپنا فالٹ ہے یا ہماری کوئی خطا ہے۔ ہم گاڑی چلانے کے دوران اس قدر بور ہوجاتے کہ ہم نے ایک دن اعلان کر دیا کہ ہم سے گاڑی نہیں چل سکتی ،برائے مہربانی ہم سے آئندہ ڈرائیونگ سیکھنے یا گاڑی چلانے کی بات بھی نہ کی جائے اور گاڑی حضرات کو بخش دی ۔ اور مزے سے دوبارہ اپنی بس پکڑ لی ۔

بالآخر اس گاڑی کو بیچنا پڑا کیوں کہ اس کی خرابیاں نکلے ہی چلی جا رہی تھیں ۔۔ کم بخت ایسے مقامات پر بند ہوجاتی جہاں بندہ نہ بندے کی ذات، کبھی کنڈ ملیر کے آدھے راستے میں، تو کبھی حب ڈیم سے واپسی پر ، تو کبھی شاہ نورانی کی پہاڑیوں میں ۔۔ سو اس سے جان چھڑائی ۔ پر اب کیوں کہ ایک بار "بڑی چادر" میں پیر پھیلا پھیلا کر آرام کر چکے تھے تو چند دن بعد ہی "گاڑی ہوتی تو یہ کام ایسے ہوتا" ، گاڑی ہوتی تو وہاں جاتے ، یہاں جاتے " ہونے لگا ۔ سیکنڈ ہینڈ گاڑی سے ہم بے زار ہوچکے تھے سو زیرو میٹر کا جگاڑ کیا گیا۔ جو زیادہ تر گیراج میں کھڑی دھول چاٹتی رہتی یا ابا کے دوستوں کو شکار پر لے جانے میں کام آتی ۔ 

بھائی نے بڑے طریقے سے ہم پر "کام اسٹارٹ کیا" کہ اب تو نئی گاڑی ہے ، اس میں تو کوئی فالٹ نہیں ہے، اب تو پتہ چل جائے گا کہ ڈرائیونگ میں کیا غلطی ہوتی ہے ۔ تُو چل تو سہی، اچھا بس روز ایک چکر پانچ نمبر کے بس اسٹاپ تک میرےساتھ لگا لیا کر ۔۔ اس سے زیادہ نہیں ۔۔۔ہمیں رام کرتے کرتے رمضان اسٹارٹ ہوگئے ۔ رمضان میں ہم نے پھر سے ڈرائیونگ اسٹارٹ کی ۔ سحری و عبادات سے فارغ ہوکر ہم بھائی کےساتھ نکل پڑتے۔ 

پہلے پہل ایک کھیل کے میدان میں چلائی ، پھر سڑک پر آگئے۔ ا ب ایک دن ہم اورنگی ٹاون کی سڑکوں پر سویرے سویرے پریکٹس کر رہے تھے، ہمارا اور بھائی کا موبائل ڈیش بورڈ پر دھرا تھا۔ ہم اپنے دھیان میں ایک کے بعد ایک اسپیڈ بریکر پر ہچکولے کھاتے جارہے تھے کہ اچانک بھائی پرجوش لیکن پست آواز میں " جلدی چل ، وہ سامنے ڈاکو" ، ہم ،" کہاں ، کدھر" ، بھائی، "وہ سامنے اس لڑکےسے موبائل چھین رہے ہیں"۔۔ لو دسو، ہمارے تو ہاتھ پاوں پھول گئے، بھائی کہے تیز چلاو، اور ہم سے بوکھلاہٹ میں گاڑی چلے ہی نہیں ، اوپر سے ڈاکو صاحبان، ہماری گاڑی کے آگے آگے بھاگے جارہے ہوں۔ شکر کے وہ تیزی میں آگے نکل گئے ، اگر وہ پلٹ جاتے تو دو موبائل انہیں اور مل جاتے۔ ہم دونوں حق دق گھر پہنچے، امی نے سنا تو اورنگی ٹاون میں ڈرائیونگ ممنوع قرار دے دی۔ ساتھ میں بھائی کو انسٹرکٹر کے عہدے سے معزول کر کے ابا کو اس عہدے پر پوسٹ کردیا۔

اگلے دن ہم ابا کے ساتھ نارتھ ناظم آباد کی طرف نکلے تو ادھر ڈاکو صاحبان ہمارے ہی پیچھے لگ گئے،ہن دسو ۔۔ بڑی مشکل ان سے جان چھڑائی ۔ اب بندہ کیا کرے کہاں جائے، اس دوران رمضان ختم ہوچکے تھے اور ہم پہلے گئیر سے دوسرے گئیر تک ترقی فرما چکے تھے۔ بس پھر یہی فیصلہ کیا کہ روز ایک چکر پانچ نمبر چورنگی کا لگا کر لوٹ کے بدھو گھر کو آجائیں۔ اب ہم یہ کرتے کہ دفتر جانے کے لیے تیار ہوتے اور بھائی کو ساتھ بٹھا کر پانچ نمبر چورنگی تک جاتے اس کے بعد ہم اپنی بس پکڑ لیتے اور بھائی گاڑی لےکر واپس ہوجاتا، کچھ دن بعد بھائی عبداللہ کالج سے گاڑی واپس لانے لگا، کچھ اور دن گزرے تو میٹرک بورڈ آفس سے واپسی ہونے لگی۔ اب ہمار ا دیدوں کا پانی خاصہ مرچکا تھا اور دیدہ دلیری بھی کچھ کچھ قدم رنجہ فرما چکی تھی۔

بڑھتے بڑھتے بات آفس تک جاپہنچی ، یعنی بھائی کے ساتھ ساتھ ہم ڈرائیو کرتے ہوئے آفس تک جاتے اور آفس سے بھائی واپس گھر چلا آتا اور ہم آفس کے بعد بس سے واپس ہوتے۔درمیا ن میں کئی ایک پسوڑیاں بھی ہوئیں ۔ ایک روز حسن اسکوائر کے پل پر ٹریفک جام میں پھنس گئے ، بریک تو لگا دی ، لیکن اب گاڑی کیسے اٹھائیں ۔۔ وقت پڑ گیا ، بریک سے پیر ہٹائیں تو گاڑی پیچھے کھسکے، پیچھے والا شور مچائے ، ہم نے جو زور دار ایکسلریٹر دبایا تو گاڑی آگے والی آلٹو کو جپھی پا گئی۔وہ بے چارہ باہر آیا، ڈرائیونگ سیٹ پر ہمیں دیکھ کے صبر کا گھونٹ بھرا اور دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ سب سے کٹھن مرحلہ بنارس سے گزرنا تھا، جہاں 360X360 سمتوں سے کوئی بھی کبھی بھی آپ کے سامنے نمودار ہو سکتا تھا ۔ پر بھائی کی ہمت کہ اس نے ہمیں مسلسل ڈرائیو کرتے رہنے پر آمادہ رکھا اور پھر ایک دن آفس پہنچ کر ہم نے بھائی کو ہی ہری جھنڈی دکھا دی، کہ اب تو جا بس سے ہم گاڑی سے واپس آجائیں گے ۔ 

فیر تے موجاں ای موجاں