Thursday, June 4, 2015

پہلوٹھی کی گاڑی

پہلوٹھی کی گاڑی ، مکران کوسٹل ہائی وے پر
آپ کی پہلی گاڑی بالکل پہلوٹھی کےبچے کی طرح ہی عزیز ہوتی ہے۔ پہلوٹھی کا بچہ سب کی آنکھ کا تارہ ہوتا ہے، اسکی ایک ایک ادا پر پورا گھر نثار ہوتا ہے، وہ ہنسے تو سب ہنس دیں اور وہ منہ بسورے تو سارا گھر پریشان ۔ اس کے ہر طرح کے لاڈ اٹھائے جاتے ہیں ۔نئے نئے کپڑے، جوتے، کھلونے لائے جاتے ہیں ۔اگر ماں اس کو ڈانٹ دے تو دادا دادی اور نانا نانی کے ہاتھوں اس کی شامت۔ بیمار ہوجائے یا بلاوجہ رونا شروع ہوجائے تو نظر جادو ٹونا، سب پر یقین آجاتا ہے خواہ آپ پکے مسلمان ہی کیوں نہ ہوں ۔ ۔ کبھی نظر اتاری جارہی ہے ، کبھی صدقہ دی جارہا ہے، علاج میں تعویز گنڈے بھی در آتے ہیں۔

پہلوٹھی کی گاڑی بھی ایسی ہی پیاری ہوتی ہے۔ شروع شروع میں اسکے ناز اٹھائے جاتے ہیں ، روز صفائی کی جاتی ہے، اپنا منہ دھلے نہ دھلے بلکہ اکثر اوقات اپنا منہ دھلنے سے پہلے ہی گاڑی کامنہ دھلوایا جاتا ہے، کبھی رم چمکائے جارہے ہیں، کبھی ونڈ اسکرین۔ نظر بٹو لٹکا ئے جا رہے ہیں ۔ فارمولا ون سے چمکایا جا رہا ہے۔ پہلی گاڑی پر پہلا اسکریچ آپ کے دل پر کم از کم چار اسکریچز کھود جاتا ہے وہ بھی گہرے گہرے۔کہیں جانے کے لیے سہج سہج کر گاڑی نکالی جاتی ہے، پیار سے اس پر کپڑا پھیرا جاتا ہے۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد آپ کا دل میزبان کی باتوں میں کم اور گاڑی کی حفاظت میں زیادہ اٹکا ہوتا ہے۔ گاڑی میں سے آنے والی ہر اجنبی آواز آپ کا دل اچھال کر حلق میں لے آتی ہے۔ اور آپ اپنے مستری کا ناک میں دم کر دیتے ہیں ۔ 

اگر گاڑی آپ کی ملکیت /قبضے میں ہونے کے ساتھ ساتھ آپکی کمائی کی بھی ہو تو پھر تو کیا کہنے۔ کسی بھائی بہن کو گاڑی چلانے دینے سے پہلے اتنی ہدایات دی جاتی ہیں کہ اگلا بندہ کہے کہ 'پھر میں انکار ہی سمجھوں'

دوسرے بچے کی آمدکے ساتھ ساتھ پہلے کی ویلیو کم ہونا شروع ہوتی ہے، پھر اسےمعمولی شرارتوں پر کٹ بھی لگ جاتی ہے۔ اسی طرح جب گاڑی پرانی ہوجائے تو اس کو صفائی کئے کئی کئی دن گزر جاتے ہیں ، پرواہ ہی کوئی نئیں۔ گاڑی میں سے کیسی ہی آوازیں آئیں مستری کے پاس جانے کی نوبت اس وقت ہی آتی ہے جب گاڑی مزید چلنے سے انکار کر دے۔ یا روڈ کے بیچ آپ کی عزت کروادے۔

ہماری پہلوٹھی کی گاڑی جب نئی نئی تھی ۔اس کی ہر اد اپر ہم ویسے ہی قربان ہوتے تھے جیسے فاطمہ کی مسکراہٹ پر۔ ہماری گاڑی آفس کے باہر کھڑی ہوتی تھی ۔ ایک دن سارے چپڑاسی بھاگتے ہوئے آئے "میڈم آپکی گاڑی کو کوئی ٹکر مار کر بھاگ گیا ہے" سارے ہماری گاڑی سے ہماری محبت سے واقف تھے ۔ ہم بوکھلا کر باہر نکلے کہ کیا ہوا ہے ۔ پتا چلا کہ کوئی امیر زادہ آفس کے سامنے سے یو ٹرن لے کر دو تین گاڑیوں کو ٹکراتا ہوا بھاگ نکلا ہے۔ ابھی ہم اپنی گاڑی کا معائنہ کر رہے تھے جس کا ایک انڈیکیٹر شہید اور کچھ حصہ مضروب ہوگیا تھا۔ کہ اگلی گاڑی پر نظر پڑی جو ہماری ساتھی آفیسر اور آفس میں ہماری یار غار نے صرف دو د ن پہلے شو روم سے نکلوائی تھی ۔ انکی گاڑی کے ڈرائیور سائیڈ کے دو دروازے اتنی بری طرح ٹُھکے ہوئے تھے کہ اسے دوبارہ شو روم لے جانے کے لیے پسنجر سائیڈ سے داخل ہونا پڑا۔ ہم انکے نقصان کے سامنے اپنے نقصان کا کیا غم مناتے۔ 

بس اسکے بعد :

مشکلیں اتنی پڑیں "اس پر" کہ آساں ہوگئیں "مجھ پر"۔

دو بار کوئی ضرورت مند میوزک کا شیدائی اس کا میوزک سسٹم اکھاڑ کر لے گیا۔ ایک اور ضرور ت مند ایل ای ڈی بھی لے گیا کہ میوزک سسٹم کے بغیر وہ کس کام کی۔ ایک اور بھائی صاحب کو پہیوں کی ضرورت تھی وہ باری باری ہماری دو عدد سٹپنیز لے گئے ، مطلب ہماری گاڑی کی۔ ایک بار ہم گاڑی درخت کے سائے میں پارک کرنے کی تگ و دو میں تھے کہ گاڑی پر لگے ہوئے اوور ہیڈ ریک نے درخت کی شاخ سے جپھی پالی اور وہیں لٹک گئے اور انکی اس جپھی کے نتیجے میں پڑنے والے نشانات آج بھی اس لو اسٹوری کی یاد دلاتے ہیں ۔

خدا گواہ ہے ہم نے آج تک کسی کو ٹکر نہیں ماری ، کبھی کوئی کھمبا چہلیں کرتا عین گاڑی کے پیچھے اس وقت آجاتا ہے جب ہم گاڑی بیک کر رہے ہوتے ہیں ۔ کبھی ہم کراچی کے دل کی باریک شریانوں میں گردش کر رہے ہوتے ہیں تو دوسرے ذرا کی ذرا صبر نہیں کرتے، بھائی لیڈیز فرسٹ ، پہلے ہمیں گزرنے دو, لیکن نہ جی, ہر ایک کو جلدی پڑی ہوتی ہے ، نتیجہ گاڑی پر متعدد ڈینٹ اور اسکریچز پڑے ہوئے ہیں ۔

پر ان ساری مشکلوں کے نتیجے میں اب ہمارےباہمی تعلقات اس مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں جہاں

"ہم بھی ہیں آرام سے اور وہ بھی ہے آرام سے"


********************