Monday, March 7, 2016

ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں

جس کی عزت کا کوٹہ پورا ہوجاتا ہے 
اسے ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کا خیال آجاتا ہے۔

پاکستان کی حالیہ سیاست سے چند مثالیں 

عمران خان اچھا خاصا کھلاڑی تھا۔ سارے ملک کی آنکھوں کا تارہ، سب سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ شوکت خانم ہسپتال نے اسکی عزت و محبت میں چار چاند لگا دئیے۔ پھر اللہ جانے کس نے اسے اکسایا کہ یہی وقت ہے اس عزت و محبت کو سیاست میں کیش کرلو۔ سیاست میں بس آپ کی کمی ہے، نا آپ سے پہلے کوئی تھا نہ آپ کے بعد ہونا۔ بس جی آگیا سیاست میں ذلیل و خوار ہونے۔  ہوا کیا جو 16 کروڑ لوگوں کا ہیرو تھا اور جسے آج 20 کروڑ لوگوں کا ہیرو ہونا چاہیے تھا آج وہ چند فیصد لوگوں کا رہنما رہ گیا اور باقی اسکا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے اور جنہوں نے اسے اس "سیاہ ست" میں دھکا دیا تھا وہ اس کے بعد نئے شکار کی تلاش میں آگے نکل گئے۔

Saturday, February 13, 2016

دل کے آئینے میں ہیں تصاویرِ یار


ایک شہری پینڈو کو چند منظر  اپنے کیمرے میں قید کرنے کی تمنا تھی لیکن کیمرہ خود بڑے بکسے میں قید تھا۔ سوچا کوئی نئیں ۔۔۔ واپسی بھی تو اسی راستے سے آنا ہے پھر بنا لوں گی تصویر ۔۔ واپسی میں تو ایمرجنسی نافذ ہوچکی تھی۔ یعنی یہ نہ تھی ہمارے قسمت ۔۔ پھر بھی ان میں سے چند منظر ہیں جو میں نے ڈائری میں قلمبند کر لیے تھے، اگر آپ سب بھی دیکھ سکیں میرے تحریر کے لینس سے ۔ ۔ ۔

کھینچے مجھے کوئی ڈور . . .


ہم ہر وقت کسی نہ کسی دھاگے سے بندھے رہتے ہیں اور بندھے رہنا چاہتے بھی ہیں، چاہے جہاں بھی ہوں ۔ کسی نہ کسی کو ہمارے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس وقت کہاں ہیں ، کیا کر رہے ہیں ۔ ایک مرکز کہیں نہ کہیں ہوتا ہے جس کے گرد ہم گھوم رہے ہوتے ہیں۔ کبھی دور کبھی پاس ، پر ہمیشہ منسلک ۔ ہم ہمیشہ معلوم رہنا چاہتے ہیں ، کسی نہ کسی کے علم میں رہنا چاہتے ہیں ۔ خواہ اپنے ہی علم میں کیوں نہ ہوں۔ 

کسی سفر میں ہوں ، کسی نگر میں ہوں ۔ سب سے پہلے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم ہیں کہاں۔ خواہ وہاں نہ موبائل ہو نہ وائی فائی ، لیکن ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس وقت کہاں ہیں ۔ کسی نہ کسی حوالے میں رہنا چاہتے ہیں ، گویا ہم جہاں موجود ہیں وہاں ہماری موجودگی کافی نہیں ، جب تک کہ اس جگہ کا ، اس اسٹیشن کا نام معلوم نہ ہو ۔

Friday, February 5, 2016

مشتہرین کو لاحق کچھ غلط قسم کی خوش فہمیاں

لاجواب  اور دانے دارچائے  کے کانٹے دار میچ میں ایوری ڈے نے فل ٹاس مارا اور وکٹ اڑانے کی بھرپور کوشش کی ۔ درمیان میں ایک ترکھان کمپنی نے اپنی فیلڈ بلکہ پچ کی شو ماری کہ آو ناں ہماری میز پر ذرا خشبو لگا کے۔ کچھ لوگوں نے چائے میں ہاتھ کا ذائقہ ملانے پر اصرار کیا تو کسی نے ذائقے کا معیار خان صیب کی چائے سے پیش کیا۔ اس سے پہلے بھی مہنگےواشنگ پاوڈر اورکم قیمت میں معیاری واشنگ پاوڈر کے درمیان ایک دھلائی  کولڈ وار برسوں سے جاری ہے۔

Monday, January 25, 2016

غربت کے سائیڈ ایفکٹس II

ترقی ناقابل گریز ہے۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ۔ لیکن ہمارے آپکے ارد گرد ہر شخص نے نہیں تو اکثریت نے پچھلے ساٹھ پینسٹھ سالوں میں لازمی ترقی کی ہے، جو پیدل تھے وہ سائیکل پہ آگئے ہیں، سائیکل والا موٹر سائیکل، موٹر سائیکل والا کار میں اور کار والا اب بڑی اور مہنگی سے مہنگی کار مین سفر کرتا ہے۔ کوئی بھی آج اس گھر میں نہیں رہتا جس میں آج سے پچاس یا ساٹھ سال قبل رہتا تھا۔ اگر پلاٹ وہی ہے تو مکان ضرور تبدیل ہوا ہے۔ اور پہلے سے بہتر ہوگیا ہے۔ پہلے اگر ایک باپ کمانے والا تھا تو اب اس کے ساتھ اسکے بیٹے یا بیٹی بھی ہاتھ بٹانے میں شامل ہیں ۔ جہاں وسائل بڑھتے ہیں وہاں لائف اسٹائل بھی تبدیل ہوتا ہے، اور سب سے بڑی تبدیلی رہن سہن کے طور طریقوں میں آتی ہے۔ طور طریقوں میں تبدیلی خوشگوار تو ہوتی ہے لیکن بندے کو خوار بھی کردیتی ہے۔  اور جنم لیتی ہے 

Poverty of Culture


ویسے تو یہ ہمارے حالات حاضرہ و غیر حاضرہ ہیں، پر کسی اور کو اس میں اپنا ماضی و حال نظر آئے تو "ادارہ " ہرگز قصور وار نہ ہوگا۔

پرانے چھوٹے سے گھر سے نئے ، بڑے اور ویل فرنشڈ گھر کے سفر تک پرانی عادتیں بڑی مشکل سے چھوٹتی ہیں ۔ کچے مکان میں تو جہاں چاہا پچکاری مار دی، جہاں چاہا کلی کر لی، پان پیک ڈالا، ہاتھ دھو لیے۔ گریس کے ہاتھ دیوار سے پونچھ دئیے، ناک صاف کر لی۔ چھوٹے بچوں کو شوشو پوٹی بھی صحن کے کسی کونے میں کروادی ، مٹی میں مٹی ہوجانی دو چار دن اِچ۔ بسکٹ یا چپس کھائے ، تھیلی ادھر ادھر کردی ۔

Friday, January 22, 2016

ایک اندھا ایک کوڑھی: پرفیکٹ لو اسٹوری

قاہرہ میں قیام کے دوران ہمارا واسطہ بہت سی مشرقی یورپی خواتین سے رہا ۔ ان میں سے کچھ خواتین تو ہماری ہی کورس میٹ تھیں اور کچھ ان کی ہموطن خواتین تھیں جو مصر میں مختلف کلچرل ایکسچینج پروگرامزکے تحت عربی لینگویج کورسز کرنے آئی تھیں۔

زیادہ تر مشرقی یورپی ممالک 90 کی دہائی میں سوویت یونین اور کمیونزم سے آزاد ہوئے تھے۔ کچھ یورپی ممالک یوگوسلاویہ کے ٹکڑے ہونے کے بعد وجود میں آئے تھے۔ ان تمام ممالک میں چند خصوصیات مشترک تھیں اور شاید اب تک ہیں ۔ یہ سب کے سب کسی نہ کسی ایسی سیاسی یا غیر سیاسی پارٹی کے زیرِ حکومت تھے جو اِن ڈائریکٹلی ان ہی ملکوں کے کے اشاروں پر ناچتی تھی جن سے یہ ممالک آزاد ہوئے تھے۔ گرانی، بے روزگاری، افراط زر ، اقرباء پروری اور رشوت [کیش اینڈ کائنڈ دونوں طرح کی] کا دور دورہ تھا۔ ان ممالک کی خوش قسمتی یا بد قسمتی سے انکے ہاں خواندگی کا تناسب 99 فیصد سے زائد ہے اور ظاہر ہے کہ ان ممالک میں نہ صرف تمام افراد کے لیے نوکریاں مفقود ہیں بلکہ نوجوان خواتین کے لیے برسرِ روزگار بوائے فرینڈز یا مستقبل کے مجازی خدا بھی available نہیں ۔

Sunday, January 10, 2016

اس بے چاری کی شادی نہیں ہوئی ناں

 جب کوئی ایسی خاتون جس کی شادی اب تک نہ ہوسکی ہو، یا اس نے کی نہ ہو پینتالیس سال عمر کے آس پاس اگر زیادہ غصہ کرتی پائی جائے یا عرف عام میں چڑچڑی ہو جائے تو ہر ایک اس کے اس رویے کا الزام اسکی نہ  ہوسکنے والی شادی پر دھر دیتا ہے کہ اسکی شادی نہیں ہوئی ناں تو اس لیے یہ چڑچڑی ہوگئی ہے۔