Friday, December 16, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ نہم / اختتامیہ)

چلو اب گھر چلیں ساغر ، بہت آوارگی کرلی 


صبح سویرے ہی روشنی ہونے سے آنکھ کھل گئی۔ اکا دکا لوگ جاگ چکے تھے لیکن اپنے اپنے مقام استراحت پر "اینڈنے" میں مصروف تھے۔ "اینڈنا"یہ ہماری ذاتی ایجاد کردہ اصطلاح ہے، یعنی آنکھ کھلنے کے بعد کی نیند ، الارم بجنے یا امی کے جگانے کے بعد جو ایک نیند کا پیریڈ ہوتا ہے اسے ہم اینڈنا کہتے ہیں۔"ہاں بس پانچ منٹ اور" والی نیند، اور جو سواد اس نیند میں ہوتا ہے وہ ساری رات کی نیند میں نہیں ہوتا۔ پر ہر گزرتے منٹ کے ساتھ روشنی بڑھ رہی تھی اور ساتھ ہی گرمی بھی۔ چار و ناچار ہر ایک اٹھ بیٹھا، ناشتے کے لیے چائے چڑھا دی گئی۔ گرمی اور حبس اتنا تھا کہ دل کرتا تھا اٹھ کے بھاگ لو ۔ ابھی سات بھی نہیں بجے تھے۔ انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ ابھی سب دوبارہ آبشار کی طرف جائیں گے، واپس آکر ناشتہ کریں گے اور پھر نو بجے تک واپسی کے لیے نکلیں گے۔ 

Monday, December 12, 2016

یونیورسل کوکنگ ریسیپی

برائے سنگلز/ ہوسٹلرز/ پردیسیاں 


ان تینوں مظلوم کیٹیگریز کے خواتین و حضرات وسائل اور وقت کی کمی کے ساتھ ساتھ حسب توقیق پھوہڑ بھی ہوتے ہیں، اس پر ستم یہ کہ بھوک میں کھانا پکانا بھی خود پڑتا ہے اورجو کچھ بن جائے اسے کھانا بھی۔ اور یہ دوسرا عمل خاصا دل گردے کا کام ہے۔ اس لیے زیادہ تر جنک فوڈ سے پیٹ بھرنا پڑتا ہے۔ جو پیٹ اور جیب دونوں پر بھاری پڑتاہے۔

 ہم پر یہ وقت گزر چکا ہے۔ پہلے پہل تو گھر سے لائی ہوئی میگی سے کام چلایا گیا، لیکن کب تک، وہ مُک گئیں، پھر عربی ذائقوں والی میگی کو حلق سے اتارنا مشکل، مرتا کیا نہ کرتا، جیسے تیسے خود پکانا شروع کیا۔ اور تین سال کے بن باس کے بعد ایک عدد یونی ورسل ریسیپی وجود میں آئی جس سے ہر قسم کا کھانا بنایا جاسکتا ہے، خواہ دال ہو، سبزی ہو یا گوشت، اور حسب موقع معمولی تبدیلی سے پردیسی کھانوں کا بھی مزہ لیا جاسکتا ہے۔

تو ناظرین آج ہم آپ کو  کھانا پکانے کی ایک یونی ورسل ترکیب سکھائیں گے۔ یعنی ایک ایسی ترکیب جس کی مدد سے آپ جب جب،  جو جو پکانا چاہیں باآسانی پکا لیں۔

Sunday, December 11, 2016

. . . Camel Tracks never end


It all started with a list of Travelling and Tracking movies shared on Facebook. Somebody just posted more than 50 travelling movie posters with a brief intro of all. One of the friends shared it on his/her profile and suddenly it got viral among the off-track-minds. Everyone was asking everyone: "How to download these movies", "if you please download, please do keep them save in your computer until I take from you", "Please keep them until I come to Lahore/ Karachi". The best happened with one of the friends who asked one of his friends to download those movies for him. His friend downloaded all those posters and handed over him the same evening and said why could he not download all those pictures himself 😉 😜

Tuesday, December 6, 2016

کراچی فوٹو واک : کراچی میں یہ گل کھلنے کا موسم ہے

نکتہ آغاز-  فوٹو: نسرین غوری 

ہم چاروں کی گاڑیاں ایمپریس مارکیٹ کی پارگنک میں موٹر سائیکلز کے درمیان ایسے خوشی خوشی محصور تھیں جیسے بھینیسیں کسی جوہڑ میں فرصت سے بیٹھی جگالی کر رہی ہوں۔ اور ہم چاروں حق دق کہ انہیں کیسے واگزار کرائیں۔ہم اتنا ہڑبڑائے کہ ،،، بس نہ پوچھیں۔ اور یہ سارا کیا کرایا ہمارا ہی تھا۔ ہم ہی ہیں جس کو یہ کراچی فوٹو واک کا وائرس لگا تھا۔ 

ونس اپان ٹو ائیرز ایک مرتبہ جب ہم ایک نامہ نیم ادبی جمع ادیبی فین گروپ کے منتظم تھے ہمیں شوق چڑھا کہ کراچی میں ریڈنگ اور فوٹو سیشن کے علاوہ بھی کوئی ایکٹیوٹی ہونی چاہیے۔ قدیم لاہور میں ہوئی واک کا نشہ بھی تازہ تھا۔ سو ہم نے گروپ کے کراچی کے ارکان کو کراچی میں بھی ایک ایسی ہی واک کروانے کا پلان بنایا۔ 

Wednesday, November 30, 2016

عزت و بے عزتی کے معیارات

صابن کا اشتہار:

ایک نوجوان خاتون، کاندھے سے نیچے ڈھلکتے ہوئے لباس میں ایک نوجوان مرد کو Seduce کر رہی ہیں اور مشتہر یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر آپ لکس سے غسل فرمائیں گی تو آپ کا شوہر یا بوائے فرینڈ آپ کے جسمانی قرب کے لیے پاگل ہوجائے گا۔ 

دوسرے اشتہار میں ایک اور خاتون اپنے برہنہ شانوں پر صابن کا پردہ ڈالے شاور میں کھڑی پتا نہیں خواتین کو یا حضرات کو مطلوبہ صابن سے غسل پر آمادہ کر رہی ہیں۔

ملک و قوم و نظریہ پاکستان کے ذمہ داران سورہے ہیں۔

Tuesday, November 29, 2016

روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں


حال دل رو برو سنانے کا جو لطف ہے اس کا تو کوئی بدل ہی نہیں لیکن ہر ایک کو یہ سہولت میسر نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر ایک میں دل کی بات رو برو کہہ دینے کی جرات ہوتی ہے اسی لیے خط لکھنے کی روایت پڑی ہوگی۔ ویسے بھی رو برو بات کہنے میں یہ بھی امکان رہتا ہے کہ اگلا آپ کی بات کاٹ کر اپنی رام کہانی شروع کردے اور آپ کی بات درمیان میں ہی کہیں رہ جائے۔

اردو شاعری سے اگر"نامہ بر" کو نکال دیں توایسی وارداتوں کے امکانات ایسے ہی 50 فیصد  کم ہوجاتے ہیں جن پر  اردو شاعری کی پوری عمارت کھڑی ہے۔   عاشقان اپنے  محبوبان کو دل کا حال سنانے کے لیے خط کا سہارا لیا کرتے تھے، کبھی خون دل سے خط لکھے جاتے، ایک کونے پر دل میں پیوست تیر سجائے جاتے اور پھر کبوتروں کونامہ بر بنایا جاتا۔ خط کبوتر کے حوالے کر کے اسکے منزل مقصود پر پہنچنے کی دعائیں بھی مانگا کرتے:

Tuesday, November 1, 2016

ذہنی ارتقاء اور سماجی روئیے

میری پانچ سالہ بھتیجی فاطمہ ہر ٹرپ پر دورانِ سفر میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھتی ہے, اور بے دھیانی میں یا جان بوجھ کر میرے پیر سے پیر ٹکراتی رہتی ہے .. میں اس کی ٹکروں سے بچنے کے لیے اپنے پیر دائیں بائیں شفٹ کرتی رہتی ہوں اور وہ بے دھیانی میں بھی اپنے پیر ادھر ادھر گھما پھرا کر پھر میرے پیروں پر رکھ دیتی ہے۔

یہ آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ میں تنگ آجاتی ہوں اور ذرا چڑ کر اسے اپنے پیر سنبھالنے کو کہتی ہوں۔  تھوڑی دیر وہ خیال کرتی ہے لیکن کچھ ہی دیر میں پھر اس کے پیر میرے پیروں پر ہوتے ہیں۔