Showing posts with label Travelogue. Show all posts
Showing posts with label Travelogue. Show all posts

Tuesday, February 14, 2017

سیون ائیرز ان تبت

ایک لو اسٹوری

سب سے پہلے تو اس کا سفر ہی کراچی سے اسٹارٹ ہوا ۔ ہمارا اپنا کراچی ، ہاں جی اور ہمارا اپنا نانگا پربت بھی ۔ بندے کی آنکھیں اور دل کھل نہ جائے تو اور کیا ہو بھلا ۔ چار کوہ نورد جو نانگا پربت کا دیا میر فیس اور ٹریک دریافت کرنے کی مہم سے فارغ ہوکر اپنے وطن واپس جانے کے لیے کراچی میں بحری جہاز کے انتظار میں تھےدوسری جنگ عظیم شروع ہونے پر سرکار انگلیشہ کے جنگی قیدی بنا لیے گئے کیونکہ انکا تعلق جرمنی سے تھا۔ اور جیل بھیج دئیے گئے جو تقریباً تبت کے بارڈر پر ہی سمجھیں ۔ اب بندہ اور وہ بھی کو ہ نورد,  انگریز کی جیل سے فرار ہوگا تو بھاگ کے اور کہاں جائے گا, تبت اور کہاں ۔ سو یہی ہوا۔

تبت اب تک ہمارے لیے بس اتنا ہی تھا کہ دنیا کا بلند ترین پلیٹو یعنی کہ سطح مرتفع ہے ، چین کا حصہ ہے، جو ذرا چین سے ناراض سا ہے اوروہاں کے حکمران ہندوستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔

Wednesday, December 21, 2016

کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی

کوہِ حنیف مڈ والکینو مہم 


ایک معصوم سا پہاڑ: دور کے ڈھول سہانے
پکچر کریڈٹ: محمد حنیف بھٹی صاحب

کہتے ہیں کہ ایک کوہ نورد یا ایک ٹریکر پر ہر ٹریک کے دوران تین مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ ابتداء میں پرجوش یا ایکسائٹمنٹ، درمیان میں پچھتاوا یا ریگریٹ اور تیسری پھر سے کسی اور نئی مہم کے لیے تیاری۔ ہم اس وقت دوسرے مرحلے سے گزر رہے تھے۔ یعنی پچھتاوا۔ بھلا ہمیں کس نے کہا تھا کہ جان بوجھ کر جان جوکھم میں ڈالیں۔ 

Friday, December 16, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ نہم / اختتامیہ)

چلو اب گھر چلیں ساغر ، بہت آوارگی کرلی 


صبح سویرے ہی روشنی ہونے سے آنکھ کھل گئی۔ اکا دکا لوگ جاگ چکے تھے لیکن اپنے اپنے مقام استراحت پر "اینڈنے" میں مصروف تھے۔ "اینڈنا"یہ ہماری ذاتی ایجاد کردہ اصطلاح ہے، یعنی آنکھ کھلنے کے بعد کی نیند ، الارم بجنے یا امی کے جگانے کے بعد جو ایک نیند کا پیریڈ ہوتا ہے اسے ہم اینڈنا کہتے ہیں۔"ہاں بس پانچ منٹ اور" والی نیند، اور جو سواد اس نیند میں ہوتا ہے وہ ساری رات کی نیند میں نہیں ہوتا۔ پر ہر گزرتے منٹ کے ساتھ روشنی بڑھ رہی تھی اور ساتھ ہی گرمی بھی۔ چار و ناچار ہر ایک اٹھ بیٹھا، ناشتے کے لیے چائے چڑھا دی گئی۔ گرمی اور حبس اتنا تھا کہ دل کرتا تھا اٹھ کے بھاگ لو ۔ ابھی سات بھی نہیں بجے تھے۔ انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ ابھی سب دوبارہ آبشار کی طرف جائیں گے، واپس آکر ناشتہ کریں گے اور پھر نو بجے تک واپسی کے لیے نکلیں گے۔ 

Sunday, December 11, 2016

. . . Camel Tracks never end


It all started with a list of Travelling and Tracking movies shared on Facebook. Somebody just posted more than 50 travelling movie posters with a brief intro of all. One of the friends shared it on his/her profile and suddenly it got viral among the off-track-minds. Everyone was asking everyone: "How to download these movies", "if you please download, please do keep them save in your computer until I take from you", "Please keep them until I come to Lahore/ Karachi". The best happened with one of the friends who asked one of his friends to download those movies for him. His friend downloaded all those posters and handed over him the same evening and said why could he not download all those pictures himself 😉 😜

Tuesday, December 6, 2016

کراچی فوٹو واک : کراچی میں یہ گل کھلنے کا موسم ہے

نکتہ آغاز-  فوٹو: نسرین غوری 

ہم چاروں کی گاڑیاں ایمپریس مارکیٹ کی پارگنک میں موٹر سائیکلز کے درمیان ایسے خوشی خوشی محصور تھیں جیسے بھینیسیں کسی جوہڑ میں فرصت سے بیٹھی جگالی کر رہی ہوں۔ اور ہم چاروں حق دق کہ انہیں کیسے واگزار کرائیں۔ہم اتنا ہڑبڑائے کہ ،،، بس نہ پوچھیں۔ اور یہ سارا کیا کرایا ہمارا ہی تھا۔ ہم ہی ہیں جس کو یہ کراچی فوٹو واک کا وائرس لگا تھا۔ 

ونس اپان ٹو ائیرز ایک مرتبہ جب ہم ایک نامہ نیم ادبی جمع ادیبی فین گروپ کے منتظم تھے ہمیں شوق چڑھا کہ کراچی میں ریڈنگ اور فوٹو سیشن کے علاوہ بھی کوئی ایکٹیوٹی ہونی چاہیے۔ قدیم لاہور میں ہوئی واک کا نشہ بھی تازہ تھا۔ سو ہم نے گروپ کے کراچی کے ارکان کو کراچی میں بھی ایک ایسی ہی واک کروانے کا پلان بنایا۔ 

Tuesday, October 18, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ہشتم)

یہ ہوا، یہ رات، یہ چاندنی 


درہ مولہ کی منفرد ٹوپوگرافی
جاتے ہوئے ہمیں پیدل جانے میں اتنا مزہ آیا کہ واپسی پر جب ہمیں جیپ رائڈ آفر ہوئی تو ہم نے انکار کردیا اور پیدل واپس آنے کو ترجیح دی۔ ریسٹ ہاؤس پہنچے تو جھٹپٹے کا عالم تھا نہ مکمل روشنی نہ مکمل تاریکی۔ کچھ لوگ ہم سے پہلے کے واپس آچکے تھے، تمام مقامی اور ڈرائیور حضرات لنچ یا ڈنر میں مشغول تھے، ہم بھی منہ ہاتھ دھو کر لائن میں لگ گئے، ریسٹ ہاؤس کیونکہ چاروں جانب سے اونچے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا ہوا کا نام و نشان نہیں تھا شدید حبس کی کیفیت تھی۔ اندھیرا بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید لوگ آبشار سے واپس آنا شروع ہوگئے، ریسٹ ہاؤس کے کمرے دن بھر کی گرمی جذب کر کے اب گرمی خارج کرنا شروع ہوگئے تھے، لہذہ کمپاؤنڈ میں دریاں بچھا کر بڑے کھانے کا انتظام کیا گیا، جس کے ساتھ ایک بڑی ایل ای ڈی فلیش لائیٹ لگا کر بظاہر روشنی کی گئی تھی مگر اس کے نتیجے میں باقی سارا جہان گھپ اندھیرے میں ڈوب گیا ، اور ارد گرد کی خلق خدا نابینا ، نابینا سا محسوس کرنے لگی۔

Sunday, October 16, 2016

تاک بندر، اورمارہ ایڈونچر

تاک بندر کیمپ سائیٹ

سالانہ فیملی ٹرپ کئی ماہ سے لڑھکتا آگے کھسکتا جارہا تھا، عید پر بننے والا پروگرام ٹلتے ٹلتے بقر عید پر پہنچا۔ بقر عید پر گورکھ ہلز یا تھر پارکر جانے کا سوچا لیکن موسم چیک کرنے پر پتا چلا کہ درجہ حرارت 40 ڈگری سے اوپر رہے گا، بچوں کے ساتھ اتنی گرمی میں سفر نامناسب ہے ۔ پھر کنڈ ملیر ہی دھیان میں آتا ہے ۔ لیکن کنڈ ملیر اتنی بار جاچکے ہیں کہ اب دل کرتا ہے کہ کوئی نئی جگہ ایکسپلور کی جائے۔

Friday, October 7, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ہفتم)

لنگ آجا پتن چناں دا یار


مولہ چٹوک کی سیال چاندی
فوٹوکریڈٹ: آلموسٹ فوٹوگرافی - ماجد حسین
مولہ آبشار کی سمت سے پانی آنے کا بس یہی ایک راستہ تھا۔ سارے پانی ہمارے سامنے سے ہماری طرف آتے تھے۔ جہاں جیپ نے آگے بڑھنے سے انکار کیا تھا وہاں ایک تنگ درہ ہے جس سے راستہ اندر جاتا ہے یعنی پانی جس راستے سے باہر آتا ہے، دونوں جانب اونچے پہاڑ ہیں۔ اگر پیچھے کہیں دو چار روز پہلے بارش ہوئی ہو تو اچانک فلیش فلڈ آنے کی صورت میں لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ لیکن لاعلمی بڑی نعمت ہے، اسی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہم کبھی پانیوں پر اور کبھی پانیوں میں اٹھکیلیاں کرتے چل رہے تھے۔ پانی اپنی فطری زگ زیگ روش پر رواں دواں تھا ہم کبھی پانی کراس کر کے دائیں ہوجاتے، کبھی بائیں، اور کبھی درمیان میں پانی میں چھپا چھپ کرتے ایک دوسرے پر چھینٹے اڑاتے۔ کبھی ہمارے ٹیبلٹ سے نورجہاں تانیں اڑاتیں اور کبھی ہمسفر اپنی آواز کا جادو جگاتے جس میں ہم دونوں اپنی بھونڈی آواز ملانے کی کوشش کرتے اور پھر اپنی ہی آواز سے گھبرا کر چپ ہوجاتے۔ یا ہنس پڑتے۔ ہماری جیپ خراب نہیں ہوئی تھی بلکہ ہماری جیسے لاٹری نکل آئی تھی۔

Saturday, September 24, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ ششم)

"مجھے آرزو تھی جس کی"


اور پھر وادی مولہ کا آغازہوگیا، جس کا علم مزید بے سمت ، مزید صحتمند اور مزید گول گول پتھروں سے پر راستے سے ہوا، راستہ جیسے ایک قلعہ کی جانب بڑھا جارہا تھا، جیپ نے ایک پہاڑ کے گرد کسی قوس قزاح کی طرح بڑا سا چکر کاٹا، اس چکرکاٹنے میں جیپ کے اندر والوں پہ جو گزری ، نہ پوچھیں، ہم پہلے ہی گرل فرینڈ اور ہم سفر کے درمیان سینڈوچ بنے بیٹھے تھے جنہیں کم از کم ایک ایک سائیڈ ہینڈل خود کو سنبھالنے کے لیے مہیا تھا، لیکن ہم بے پیندے کے لوٹے، خود کو لڑھکنے سے بچانے کےلیے سامنے کی دونوں سیٹوں کی پشت کو سختی سے تھامے بیٹھے تھے اور خیال رہے کہ دوپہر سے بیٹھے تھے اور اب شام ہوچلی تھی۔ اور ہمارے ہاتھ تقریباً اسی پوزیشن میں اکڑ گئے تھے۔ جیپ چکر کھا کر ایک مزید درے کے اندر داخل ہوگئی، جہاں سے دور سے ہی ایک سطح مرتفع پر ایک پیلے رنگ کی چپٹی سی لکیر نظر آرہی تھی، جو بقول گائیڈ ریسٹ ہاؤس تھا۔ جب تک اس لکیرنے ایک باقاعدہ عمارت کی صورت اختیار کی ہم تینوں بشمول گائیڈ جیپ میں ایسے اچھلتے رہے جیسے آگ پر رکھے برتن میں مکئی کے دانے نچلے نہیں بیٹھ سکتے اور شرارتیں کرتے رہتے ہیں۔ 

Friday, September 16, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ پنجم)

جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے


اورپھر جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائ ویسے ہی اچانک سے ایک پھولوں بھری راہ گزر سامنے آگئی، حد نظر تک گلابی پھول ہی پھول۔ رہ نما نے بتایا کہ دور مشرف میں ہی اس پودے کی باقاعدہ کاشت کی گئی تھی ، پنیری لگائی گئی تھی اور وادی میں متعدد جگہوں پر یہ جنگلی گلاب نما پودا کاشت کیا گیا تھا ۔ جو اب بھی کہیں کہیں وادی کے حسن میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق وادی میں زیتون کی کاشت بھی کئ گئی تھی لیکن ٹمبر مافیا زیتون کے درختوں کو غیر قانونی طور پر اسمگل کر رہی ہے۔ ہمارے راستے میں بھی ایک ٹویوٹا ہائی لکس پر زیتون کی لکڑیاں لادی جارہی تھیں۔ 
فوٹوکریڈٹ: مصنف

Saturday, September 10, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ چہارم)

سر وادی ءِ مولہ


ہمارے گائیڈ جو مولہ تحصیل کی ایک یونین کونسل کے سابق ناظم رہ چکے تھے، روانی سے اپنے علاقے کے نمایاں سنگ میلوں اور اپنے دور نظامت میں علاقے میں کی جانے والے ترقیاتی کاموں کی تندہی سے نشاندہی کرتے رہے، راستے میں آنے والے مختلف گاؤں دیہات کے اسمائے شریف بھی انہوں نے پوری ذمہ داری سے ہمارے گوش گزار کئے، لیکن کیونکہ جیپ اچھلتی بہت زیادہ تھی اور نتیجے میں ہم بھی بہت زیادہ اچھلتے تھے تو آواز کی لہریں کان میں تو داخل ہوئیں لیکن کان توازن برقرار رکھنے میں اتنے مصروف تھے کہ صوتی پیغامات بروقت آگے ترسیل نہ کر پارہے تھے، قصہ مختصر اس وقت ہمیں ان کے بتائے گاؤں میں سے ایک بھی نام یاد نہیں۔

Sunday, August 28, 2016

مولہ چٹوک : سفرنامہ (حصہ سوئم)

مولہ ٹریک: ایک ونڈر لینڈ


سفرنامے کا حصہ دوئم یہاں پڑھیے۔

الامارات ہوٹل سے تقریباً 10 کلومیٹر پہلے خضدار کینٹ ایریا شروع ہونے سے چند گز قبل آر سی ڈی ہائی وے سے گوادر رتو ڈیرو موٹر وے کا آخری حصہ M-8 نکلتی ہے جسے مقامی لوگ خضدار سکھر موٹر وےکہتے ہیں۔ اس موٹر وے پر تقریباً دس سے بارہ کلومیٹر کے بعد ایک فوجی چیک پوسٹ آتی ہے ، جس سے چند گز کے بعد ہی بائیں جانب ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر مولہ چٹوک آبشار لکھا ہوا ہے۔ یہاں تک موٹر وے بہت ہی شاندار ہے اور یہیں سے مستقل پل صراط سا راستہ نکلتا ہے جو سیدھا بہشت کو جاتا ہے۔ لیکن راستہ اتنا بھی سیدھا نہیں جاتا کچھ کچھ جلیبی بلکہ جنگل جلیبی سا جاتا ہے۔جنہوں نے جنگل جلیبی نہیں کھائی یا نام بھی نہیں سنا ان پر ہم بس ترس ہی کھا سکتے ہیں، بے چارے محروم لوگ۔

Saturday, August 13, 2016

مولہ چٹوک: سفرنامہ (حصہ دوئم)

جہاں کسی کو بھی کچھ بھی حسب آرزو نہ ملا


سفر نامے کا حصہ اول یہاں پڑھیے۔

گاڑی پارک کر کے واپس آئے تو جب تک بارات کی بس بھی آچکی تھی، اور باقی باراتی بھی۔ کچھ باراتی سیٹوں پر قبضہ بھی کر چکےتھے، ہم نے بھی ایک کھڑکی والی سیٹ پکڑلی۔ گرل فرینڈ نے ہماری دیکھا دیکھی ایک اور کھڑکی پر قبضہ جما لیا ، ان کو نظریں پھیرتے دیکھ کر ہم نے بھی انہیں" ہنہہ "کر کے فوراً اپنے دائیں پڑوسی سے ڈاک خانہ ملا لیا۔ ہماری انکی پہلے سے دعا سلام تو تھی، لیکن یقینی گمان ہے کہ ہم دونوں ہی غالباً ایک دوسرے کے ظاہری حلیے اور سابقہ تعارف کے باعث ایک دوسرے سے اور ایک دوسرے کے بارے میں بالترتیب خاصے مرعوب و مشکوک تھے، جس کو درست ثابت کرنے کے لیے انہوں نے ہم سے بارہا دریافت کیا ہوگا کہ "آر یو کمفرٹیبل؟"۔

Saturday, August 6, 2016

مولہ چٹوک : سفر نامہ (حصہ اول)

 جو'جانا 'چاہو ہزار رستے ۔ ۔ ۔


مولہ چٹوک آبشارایک جنت مقام۔
 فوٹو گرافی: جام اقبال بذریعہ ابو ذر نقوی

دماغ بولا: "اتنا مہنگا ٹرپ اور وہ بھی اتنی جلدی"

دل بولا: 
"ایک ہی تو شوق ہے تمہارا"
"نہ تمہیں ڈیزائنرز لان کا شوق"
نہ میک اپ کا خرچہ ،نہ زیور کا شوق"
"بس ایک سیرو تفریح کا ہی تو شوق ہے"
"کیا ہوا جو ایک مہنگا ٹوور کر لیا "
"جگہ بھی تو ایسی ہے کہ اپنے طور پر جانا مشکل ہے۔" 

Sunday, June 5, 2016

شہر غاراں

ایک فوٹو بلاگ


بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع Cave City جسے شہر روغاں، گوندرانی اور مائی پیر بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر  واقع ہے۔ روایت کے مطابق یہ غار ہزار سال قدیم ہیں اور بدھ بھکشووں کی عبادت گاہ تھے۔ 

شہر غاراں

Sunday, May 29, 2016

مولہ چٹوک : سفر نامہ

زیر تعمیر۔ ۔ ۔ 

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
میری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
شکیب جلالی                               

تصویر نسرین غوری

Monday, May 9, 2016

مولہ چٹوک: بلوچستان کی ایک جنت نشاں وادی

مولہ آبشار کے اندر کا منظر: فوٹو کریڈٹ: جام اقبال

مولہ چٹوک بلوچستان کے ضلع خضدار کی ایک جنت نشاں وادی مولہ میں ایک آبشار کا نام ہے جو دراصل دریائے مولہ ہے اور چٹوک مقامی زبان میں آبشار کو کہتے ہیں، جس مقام پر یہ دریا آبشار کی صورت پہاڑوں سے باہر آتا ہے اسے مولہ چٹوک یا مولہ واٹر فالز کہتے ہیں ۔

Tuesday, November 24, 2015

مکران کوسٹل ہائی وے کے جلوے 2

زیرو پوائنٹ
مزمل اینڈ کمپنی کے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ ہم پر اور بھائی پر سفر سوار ہوگیا۔ ہماری ذمہ داری سامان کی لسٹ بنانے کی اور بھائی کی ذمہ داری سامان جمع کرنے کی تھی۔لسٹ بنائی، لسٹ تھی کہ شیطان کی آنت۔ پر اسکے بغیر گزارہ بھی نہیں ۔۔ کیونکہ مکران کوسٹل ہائی وے اور کنڈ ملیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں ایک خاص حد کے بعد آپ کو نہ پٹرول دستیاب ہوگا نہ پانی، نہ کھانے کو کچھ ۔۔ مکران کوسٹل ہائی وے پر بندہ صحیح سے خانہ بدوش ہوجاتا ہے۔ خاص کر اگر آپ اپنا "خان دان" ساتھ لے کر جارہے ہیں تو پھر اپنا "خانہ" بھی دوش پرڈال کر خانہ بدوش ہوجائیں۔

Thursday, November 5, 2015

استولا 3: تم اس جزیرے پہ بھی اترنا

طلوع آفتاب سے قبل استولا۔ کاپی رائیٹس: نسرین غوری

یومِ ثانی:

دوسری صبح غالباً روشنی کے باعث ہماری آنکھ جلد ہی کھل گئی، گو کہ سورج ابھی تک نمودار نہیں ہوا تھا۔ لیکن کافی روشنی تھی۔ شہزاد اور علیم نے ناشتے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا۔ ایک دو اور لوگ جاگ چکے تھے ۔ لیڈر آگ لگانے مطلب آگ جلانے میں مصروف تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کے بچے بچیاں خیموں اور سلیپنگ بیگز سے باہر تھے سوائے شیراز اور معیز اور صائم کے جو نہ جانے کیا بیچ کر سوئے تھے کہ جاگتے ہی نہ تھے۔ 

اب صورت حال کچھ یو ں تھی کہ علیم اینڈعلیزے کمپنی ایک جانب پتھروں سے بنے نیم دائرہ نما کچن میں گیس سلنڈر پرآلو انڈے فرائی کرنے کی تیاریوں میں تھی۔ علیزے نے بہت ہی محنت اور محبت کے ساتھ آلووں کو اسکیل سے ناپ کر با لکل چوکور کیوبز کی شکل میں کاٹا اور بہت سارا کاٹا ۔ جس پر انکو کافی داد ملی۔ دوسری جانب خضر اور شہزاد ڈائیٹ پراٹھے پکانے میں مصروف تھے، شہزاد پراٹھے بیلتے ، اور خضر انہیں کوئلوں پر تاپتے، جبکہ مزمل شعلوں کو ہوا دینے پر مامور تھے۔ 

Friday, October 30, 2015

استولا 2:خوابوں کا اک جزیرہ ہو

سارا سامان کشتی سے اتار کر ساحل پر ڈھیر کر دیا گیا ، ہر ایک کو اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر کیمپ سائیٹ تک جانا تھا اور تقریباً تیر کر جانا تھا کیوں کہ پانی چڑھاو پر تھا۔ ہم نے اپنا سارا سامان اکھٹا کیا اور ایک بڑے پتھر پر ڈھیر کردیا۔ دیکھا تو ہمارے سامان میں ہماری ہوائی چپل اور سلیپنگ بیگ غائب تھا ۔ چپل تو مل ہی گئی لیکن سلیپنگ بیگ نہ مل کے دیا۔ کافی دیر ہم سلیپنگ بیگ کے لیے پریشان اور خوار ہوئے لیکن مل کے نہ دیا۔ سامان میں دو ہی سلیپنگ بیگ تھے جو بقیہ سلیپنگ بیگز سے جدا ادھر ادھر لڑھکتے پھر رہے تھے ایک بیگ تو ایک اور خاتون کا تھا، دوسرا نہ جانے کس کا تھا۔ جب ہم اپنے سلیپنگ بیگ کی تلاش سے بہت ہی بےزار ہوئے تو دوسرے لاوارث سلیپنگ بیگ پر قبضہ کر لیا کہ جس کا بھی ہوگا ڈھونڈتا ہوا آئے گا ہمارا دے جائے اپنا لے جائے ۔ ورنہ بس یہی ہمارا سلیپنگ بیگ تھا۔