ہم اپنے بچپن کو یاد کریں تو ہم نے اورنگی ٹاون میں ہی ہوش سنبھالا تھا۔ اس زمانے میں اورنگی ٹاون خاصا کھلا ڈلا ہوتا تھا اور ویرانے میں ایک دو جھونپڑی نما گھر ہوتے تھے جہاں سے حبیب بنک ٹاور براہ راست مشاہدہ کیا جاسکتا تھا، اور اگر نانا نانی یا کوئی بھی مہمان ہمارے گھر آتا تھا تو وہ ایک کلومیٹر دور بس اسٹاپ پر بس سے اترتے ہی نظر آنے لگتا تھا ۔
ہمارا محلہ ایک بہت بڑے آنگن پر مشتمل تھا جس میں ذرا فاصلوں سے دو چار جھونپڑیاں [ممی ڈیڈی بچوں کے لیے چٹائی کی بنی ہوئی ہٹس] ہوتی تھیں ۔۔ ایک ہماری، ایک ہمارے سامنے حسینہ باجی جو بلوچ تھیں مطلب ابھی بھی ہیں اللہ انہیں صحت و حیاتی دے، ایک برابر میں سلمی باجی اور صابر بھائی کی، ان کے سامنے خانصاحب کی جو بنگلہ دیش سے ہجرت کئے ہوئے پٹھان تھے۔ ہمارے پیچھے ایک جھگی حنیفہ باجی کی ، وہ بھی بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آئی ہوئی بہاری فیملی تھی۔