وہی جسے انگریزی میں کوانٹم لیپ کہتے ہیں
کچھ عرصہ قبل پی ٹی وی کے نئے شو "ان کہی ود شہناز شیخ" میں ڈاکٹرمحروب معیز اعوان کا انٹرویو نشر کیا گیا۔ اٹ واز اے پلیزینٹ سرپرائز۔ پی ٹی وی اور ایک خواجہ سرا کا انٹرویو ، وہی پی ٹی وی جہاں خاتون اداکارہ سوتے میں بھی سر پر دوپٹہ لیے ہوتی تھی اور مرد اداکار کسی خاتون اداکار کا ہاتھ ڈرامے میں بھی نہیں تھام سکتا تھا۔میں نے بہت عرصے سے پی ٹی وی نہیں دیکھا ہے، یقیناً موجودہ پی ٹی وی اس پی ٹی وی سے بہت مختلف ہوچکا ہے جسے دیکھنے کی میری نسل عادی رہی ہے۔
میرے لیے یہ بات اس لیے بھی حیرت کا باعث تھی کہ میری معلومات کے مطابق ابھی تک کسی پرائیوٹ چینل نے بھی کسی پروگرام میں باقاعدہ اور ایکسکلوسیولی ڈاکٹر محروب معیز اعوان کا انٹرویو نہیں کیا ہے ، ایک دو منٹ کے لیے کسی پروگرام میں یا کسی سیگمنٹ کے لیے خواجہ سرا /ٹرانس کمیونٹی کے کسی ایشو پر یا ڈاکٹر صاحبہ سے گفتگو تو شاید دیگر چینلوں پر کبھی نشر ہوئی ہو۔ لیکن پورا ایک پروگرام کسی چینل پر نہیں دیکھا۔ ممکن ہے اس ضمن میں میری معلومات ناقص ہوں کیونکہ میرا ٹی وی دیکھنا نہ دیکھنے کے برابر ہے۔
[جی ہاں ڈاکٹر صاحبہ میں نے جان بوجھ کر لکھا ہے ۔ کیونکہ ایک تو ڈاکٹر محروب ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں دوسرے وہ اپنی شناخت ٹرانس فی میل یا فی میل خواجہ سرا کے طور پر کرتی ہیں۔ تو جو شناخت وہ اختیار کرتی ہیں ہمیں ان کی اس چوائس کا احترام کرنا چاہیے۔ آپ نہ کریں ، لیکن آئی پریفر ٹو ریسپیکٹ ہر چوائس] مجھے بھی اس انٹرویو کی خبر ڈاکٹر صاحبہ کے پیج پر اس کا ایک حصہ پوسٹ کیے جانے سے ہوئی پھر میں نے یو ٹیوب پر تلاش کر کے پورا انٹرویو دیکھا۔
ان کہی ود شہناز شیخ پی ٹی وی ہوم کا نیا میگزین پروگرام ہے جس میں ہر ہفتے کسی ایک شخصیت کا انٹرویو کیا جاتا ہے۔ یہ اس سلسلے کا تیسرا انٹرویو تھا۔اس انٹرویو میں ڈاکٹر محروب معیز اعوان سے ان کے بچپن، فیملی، تعلیمی سفر اور پھر اپنی شناخت تبدیل کرنے کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔۔ اینڈ آئی ریکمنڈ دس انٹرویو ٹو آل آف یو۔یہ انٹرویو ہر انسان کو ، خصوصاً ہر مرد اور عورت کو ضرور دیکھنا چاہیے ۔
ہم سب اپنے ارد گرد خواجہ سراوں کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں جنہیں ہم خسرے، کھسرے یا ہیجڑے جیسے ناموں سے جانتے ہیں۔ ہم نے انہیں اپنے گھروں اور محلو ں میں خوشی کے موقعے پر گاتے ناچتے تالیاں بجاتے دیکھا ہے۔ ہم نے اپنے ارد گرد لوگوں کو ان کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھا ہے اور کسی نہ کسی حد تک خود بھی اڑایا ہے۔ ہمارے لیے خواجہ سرا ایک پیس آف اینٹرٹینمنٹ ہیں ، تماشہ ہیں۔ یا پھر ہم نے انہیں سڑکوں اور سگنلوں پر بھیک مانگتے دیکھا ہے، اور سنا بہت کچھ ہے۔جس میں سے اگر کچھ سچ ہے تو بہت کچھ ان کی مجبوری بھی ہوگا اور کافی کچھ زیب داستان بھی۔
یا پھر ہم نے خواجہ سراوں کے بارے میں خبریں سنی/ پڑھی ہیں جن میں زیادہ تر خبریں خواجہ سراوں کے قتل کی ہوتی ہیں۔ یہ ہم "نارمل" انسانوں کے لیے اگر تماشہ نہیں تو پھر یہ ہمارا پنچنگ بیگ ہیں یا پھر گنی پگز جن کے ساتھ ہوئی کوئی زیادتی خبر کا حصہ کم ہی بن پاتی ہے بن جائے تو ہم پڑھ /سن کر ایسے اگنور کرتے آگے بڑھ جاتے ہیں جیسے کسی آوارہ کتے بلی کے ساتھ کسی واقعے کی کوئی خبر ہو۔
لیکن کیا ہم نے کبھی کسی خواجہ سرا کو انسان بھی سمجھا ہے ، اپنے جیسا انسان، سانس لیتا ہوا، جو ہمارے لیے تو پیس آف اینٹرٹینمنٹ ہے لیکن ہماری طرح اس کی بھی فیلنگز ہیں ۔ اسے بھی خوشی محسوس ہوتی ہے، اسے بھی غم ، دکھ ، درد ، تکلیف ویسے ہی محسوس ہوتی ہے جیسے ہمیں۔ اسے بھی اپنے ارد گرد انسانوں کی، انسانی رشتوں کی، انسانی لمس کی ضرورت ویسے ہی ہوتی ہے جیسے ہمیں۔ جسے ویسے ہی کوئی بات بری لگتی ہے تو رونا بھی آتا ہوگا۔ لوگ مذاق اڑاتے ہونگے تو اس کا دل بھی دکھتا ہوگا۔
کیا ہم نے کبھی اس انسان کے بارے میں سوچا ہے جسے ایک دن یہ رئیلائز ہوتا ہے کہ وہ تو نہ مرد ہے نہ عورت، بلکہ وہ کوئی درمیان کا انسان ہے جو نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے، اوراس کے بیک گراونڈ میں وہ سارا سلوک بھی رکھ دیں جو کچھ اس قسم کے انسانوں کے ساتھ اس معاشر ے میں ہوتا ہے۔ جس دن اسے یہ رئیلائز ہوتا ہے تو اس کی کیا فیلنگز ہونگی۔
یہ رئیلائزیشن تو شاید بہت بعد میں جا کر ہوتی ہو اس سے پہلے اس کے گھر والے، گلی محلے والے، پھر اس کے اسکول کے بچے اسے کن نظروں سے دیکھتےہونگے اور اس کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہونگے۔ کبھی خود کو اس کی جگہ رکھ کر دیکھا ہے۔ یقیناً نہیں ، کیونکہ ہم تو یا عورت پیدا ہوئے ہیں یا مرد، ہم تو مکمل پیدا ہوئے ہیں ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ کسی نامکمل انسان کے بارے میں سوچیں ۔
اسی لیے یہ انٹرویو دیکھنا ضروری ہے ۔ ڈاکٹر محروب بہت خوش قسمت تھیں اور ہیں کہ انہیں اتنی سپورٹنگ فیملی ملی ۔ لیکن سب اتنے خوش قسمت نہیں ہوتے۔ ایک اور خواجہ سرا جو پنجاب کے ایک کالج میں لکچرر ہیں ان سے کسی نے ان کی فیملی کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ" میں خود ہی اپنی ماں ہوں ، خود ہی اپنا باپ بھی، اپنی بہن بھی اور بھائی بھی۔ جب میں نے ایک بار ماں سے پوچھا کہ تم نے مجھے مار کیوں نہ دیا تو اس نے کہا کہ میں تو تمہیں اسی وقت مار رہی تھی لیکن تمہارے باپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا"۔ اور خواجہ سراوں کی اکثریت کے بارے میں تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ان کی فیملیز ان سے دست بردار ہوکر انہیں خواجہ سرا کمیونٹیز کے حوالے کردیتی ہیں ۔
اس لیے دیکھیے ، ضرور دیکھیے ، کیونکہ یہ دو تعلیم یافتہ اور بالغ افراد کے درمیان ایک سنجیدہ اور ڈیسنٹ مکالمہ ہے۔ اسے سننے سے آپ کا دماغ کھلے گا اور دل خواجہ سرا کمیونٹی کے بارے میں وسیع ہوگا۔ یہ پروگرام یو ٹیوپ پر چار حصوں میں دستیاب ہے۔ اگر آپ ان کہی ود شہناز شیخ + محروب معیز لکھ کر سرچ کریں گے تو باآسانی مل جائے گا۔
ہیپی واچنگ 
