کچھ عرصے سے فیس بک ریلز میں ایک ڈرامے کی جھلکیاں آرہی تھیں جن میں صبا قمر کو ٹیکسی چلاتے دیکھایا گیا تھا ۔ پچھلے ویک اینڈ یو ٹیوب پر تلاش کر کے ڈرامہ دیکھا۔ دل خوش ہوگیا۔ چھ قسطوں اور پانچ اہم موضوعات پر مبنی پانچ کہانیوں کی ایک منی سیریز جو ہمارے سماجی نظام اور اقدار پر کئی سوال اٹھاتی ہے۔
پہلی کہانی خود صبا قمر / رانیہ کی ہے جو ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی جینڈر ڈسکریمنیشن کے موضوع پر ہے۔ بیٹے اور بیٹی میں سے ایک کو پڑھا سکتے ہوں تو بیٹی کو گھر بٹھا لو اور بیٹے کی تعلیم جاری رکھو۔ مشکل وقت آئے تو بھوکے مر جاو لیکن بیٹی کو جاب / کام نہ کرنے دو۔ رشتے داروں کے اعتراض کہ جاب / کام کرنے والی لڑکی آوارہ ہوتی ہے۔ بہن اگر گھر سنبھالنے کو گھر سے قدم باہر نکالے تو بھائی کی غیرت جاگ جاتی ہے لیکن اپنے معیار سے کم کا کام کرنے سے بھی عزت میں کمی واقع ہوجاتی ہے لیکن ڈّوب مرنے جتنی شرم پھر بھی نہیں آتی ۔۔ مجھے تو یہی سمجھ نہیں آئی کہ ایک چھوٹے بھائی کو جو پڑھا لکھا بھی ہے اگر خود کچھ نہیں کما سکتا تو بڑی بہن پر اتنا تاو کھانے کی وجہ کیا ہے۔ خود اس کا گھر کی آمدنی میں کیا حصہ تھا کہ وہ اتنا غصہ کرتا۔ آپ خود کچھ کررہے ہوں ٹھونسنے اور پلنگ توڑنے کے علاوہ تو بنتا ہے کہ آپ حکم چلائیں باقیوں پر۔ پھر کیا ماں بھیک مانگ کر لاتی گھر میں۔
اگلی کہانی کا موضوع مردانہ بانجھ پن تھا جس کی سزا ہمیشہ عورت کو ملتی ہے۔ مرد میں اتنی غیرت اور اخلاقی جرات ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی خامی کا اقرار کرسکے ۔ اور سسرالی اور ملنے جلنے والوں کے سارے طعنوں اور سوالوں کا بوجھ عورت کو اٹھانا پڑتا ہے۔
تیسری کہانی میں سوشل میڈیا پر خواتین کو لاحق خطرات کو موضوع بنایا گیا جس میں ایک گھریلو لڑکی کے سوشل میڈیا پر مشہور ہوجانے کی صورت اسے کس طرح اسکینڈلائز کیا جاسکتا ہے اور فیملی اور رشتہ داروں کی طرف سے کس قدر منفی رد عمل آسکتا ہے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی، رانیہ کے منگیتر کے برعکس ٹک ٹاکر لڑکی کے منگیتر کا کردار مثبت دکھایا گیا ، دونوں کے منگیتر ان کے کزن تھے لیکن ٹک ٹاکر لڑکی کا منگیتر نہ صرف اس پر پورا بھروسہ کرتا ہے بلکہ مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑا رہتا ہے جبکہ لڑکی کے والدین اور بھائی اس سے ناطہ توڑ لیتے ہیں۔ یہ ایک اچھا سائن ہے۔ ایسے رول ماڈلز کی ہمارے معاشرے میں بہت ضرورت ہے۔
اگلی کہانی بہت ہی اہم موضوع یعنی ٹرانس جینڈر بچوں کے بارے میں تھی ۔ کہ ایک ٹرانس جینڈر بچہ خدا کی دین ہے آپ بطور والدین اس کو راندہ درگاہ بھی کرسکتےہیں اور آپ ہی اس کا ساتھ دے کر اسے تعلیم دلا کر ، اسے معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے لائق ایک مفید شہری بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ قسط اس لائق تھی کہ اسے ٹی وی کے ہر چینل سے ہفتے میں ایک مرتبہ ضرور نشر کیا جانا چاہیے۔ لیکن نبیل کو ابا کے رول میں دیکھ کر دل کو کچھ کچھ ہوتا ہے پر تم نہیں سمجھو گے راہول 

پانچویں کہانی کارپوریٹ ورلڈ میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والےصنفی تعصب سے متعلق تھی۔ جہاں خواتین کو نہ صرف شو پیس اور دل بہلانے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ ان کی ہر کامیابی کو ان کے ٹیلنٹ کے بجائے ان کی جنیڈر سے منسلک کردیا جاتا ہے کہ یہ کامیابی عورت کارڈ یا ادائیں دکھا کر حاصل کی گئی ہے ۔
آخری قسط میں ان پانچوں کہانیوں کی ہیپی اینڈنگ دکھائی گئی ۔ لیکن سب سے اہم بات جو اس سیریز سے سامنے آتی ہے وہ ہے فیمیل کیب ڈرائیور کی کراچی جیسے شہر میں کس قدر ضرورت ہے۔ اور خواتین خاتون ڈرائیور کے ساتھ خود کو کس قدر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ نہ صرف خواتین بلکہ بچیوں کے والدین بھی۔ اگر مجھے کوئی خاتون وین ڈرائیور مل جائے تو میں اپنے بچوں کو خاتون وین ڈرائیور کے ساتھ اسکول بھیجنے کو ترجیح دوں گی۔ آئی رئیلی رئیلی وش کہ کراچی میں کوئی آن لائن ٹرانسپورٹ کمپنی خواتین مسافروں کے لیے ڈیڈیکیٹڈ فیمیل ڈرئیون ٹرانسپورٹ کی بنیاد ڈالے۔ چند ایک خواتین ہیں اس لائن میں لیکن اس فیلڈ میں ایمپلائمنٹ کے بھرپور مواقع ہیں۔
پی ایس: جویریہ سعود ٹائپ کاسٹ میں پھنس گئی ہے ۔ اور ایک جیسے لڑاکا فسادی کردار ادا کر کر کے زہر لگنے لگی ہے۔ اور اب تو نازلی نصر بھی, پھاپھے کٹنی لگتی ہے اور ویسے ہی رول کرتی ہے.