دفتر کے راستے میں میری گاڑی کے برابر سے ایک موٹر سائکل گزری جس پر ایک جوڑا براجمان تھا۔ ایک پل کے لیے میری نظر ادھر گئی۔ خاتون کا دایاں ہاتھ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے صاحب کے زانو پر پشت کے بل ایسے دھرا تھا جیسے ان کے ہاتھ سے صاحب کی قمیص بے دھیانی میں نکل گئی ہو۔ بس ایک لمحے میں یہ منظر آنکھ سے اوجھل ہوگیا لیکن وہ ہاتھ آج بھی میرے دھیان میں ویسے ہی وہیں دھرا ہے۔
Sunday, April 23, 2017
Tuesday, April 18, 2017
ترقی ءِ معکوس
انسانوں کی طرح شہروں اور مکانات کی بھی نسلیں ہوتی ہیں ۔ ضمیر جعفری
موجودہ مکان ہمارے گھر کی پانچویں پشت ہے۔ جو پچھلی پانچ دہائیوں میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتے کرتے ایک چٹائی کی جھونپڑی سے تین منزلہ مکان میں تبدیل ہوگیا ہے ۔
پہلی پشت میں گھر ایک جھونپڑی اور ایک بڑے سارے مشترکہ صحن پر مشتمل تھا۔ جس کا آنگن سارے محلے کا مشترکہ صحن تھا ساری خواتین گھر کے مختلف کام نپٹاتے ہوئے ایک دوسرے سے گپیں بھی لگاتی جاتی تھیں اور سب کے بچے بھی اسی "آنگن" میں ایک دوسرے کی نظروں کے سامنے اچھلتے کودتے، گرتے پڑتے ، چوٹیں کھاتے اور روتے گاتے رہتے۔ سردیوں میں جھونپڑی کے اندر اور گرمی میں جھونپڑیوں کے باہر بستر ڈال کر رات بسر کی جاتی۔
Labels:
Biograph,
Psychology
Subscribe to:
Posts (Atom)