ترقی پذیر قوم ہونے کےناتے ہم جذباتیت پر یقین رکھتے ہیں اور ریشنالٹی یا ریشنلزم کا گزر ہمارے قریب سے نہیں ہوتا, اس جذباتیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اختلاف رائے کو دشمنی کا درجہ دیتےہیں اورہم خیالی دوستی اور اپنائیت قرار پاتی ہے.ہم میں سے ہر ایک کی دنیا میں یا تو فرشتے ہوتے ہیں یعنی اپنے جو ہر غلطی سے مبرا ہوتے ہیں یا پھر شیاطین جن میں کوئی خوبی ہو ہی نہیں سکتی. بس ہمارے دوستوں اور دشمنوں میں حضرت انسان کی کمی ہمیشہ رہتی ہے جو خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہے۔۔
Thursday, August 14, 2014
طفل مکتب
فاطمہ پورے گھر کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتی ہے, وہ چاہتی ہے کہ جیسا وہ کہے جیسا وہ چاہے سب ویسا ہی کریں. اگر نہ کریں تو ناراض ہوجاتی ہے, خوب غصہ کرتی ہے. کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ اسکی یہ کائنات(گھر) صرف اور صرف اسکے لئے تخلیق کی گئی ہے. اسکی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کے لئے. اسکے گرد گردش کرنے کے لئے. جب اسکی یہ توقع پوری نہیں ہوتی تو ناراضگی اور تلخی کا اظہار کرتی ہے.
ہم سب میں ایک فاطمہ پوشیدہ ہے, ایک ساڑھے تین سال کا بچہ. کسی نہ کسی حد تک ہم میں سے ہر ایک اسی گمان میں رہتا ہے کہ یہ دنیا اور اسکے اسباب بس میرے ہی لئے تخلیق کئے گئے ہیں. لہذہ ہر کام میری مرضی کے مطابق ہونا چاہئے, ہر شخص کو میری توقعات پر پورا اترنا چاہئے. لیکن اکثر و بیشتر ایسا ہوتا نہیں ہے, نتیجہ ہر شخص اپنی ٹوٹی ہوئی امیدوں کا غصہ اپنے ارد گرد ہر شخص پر نکال رہا ہوتا ہے. گویا ارتقاء کی سیڑھی پر ہم ابھی تک طفل نادان ہی ہیں
Labels:
Sociograph
Saturday, August 9, 2014
فرمائشی سفرنامہ: پارٹ تھری
رما موٹیل میں ہی جانے کتنے دنوں کے بعد ٹی وی اور خبریں دیکھنا نصیب ہوئیں اور یہ پتہ چلا کہ مذاق رات ختم ہوگئے ہیں اور اب آپریشن کلین اپ ہونے والا ہے نواز شریف قوم سے خطاب کر رہے تھے ۔ یہاں جیو تیز کی شکل بھی نظر آئی۔ آنکھوں میں ٹھنڈ پڑ گئی۔
قراقرم ہائی وے پر جہاں نانگا پربت کلر ماونٹین آپکے لیفٹ پر کا بورڈ لگا ہے ، اسکے بلکل سامنے سڑک کے اس پار ایک ننھا منا سا ریسٹورینٹ ہے جہاں مسافروں کی تواضع کھانے پانی کے علاوہ مفت شہتوت سے کی جاتی ہے۔ چند دکانوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ جس کے درمیان میں ایک بڑا سا شہتوت کا درخت جو اس وقت پھلوں سے لدا ہوا تھا، اس ریسٹورینٹ کی ایک اور خاصیت، کھانے کے ساتھ اچار وافر مقدار میں دیا جاتا تھا۔ یہ وہ نعمت تھی جو ہم ساتھ لے جانا بھول گئے تھے۔ اور ہائیٹ کی وجہ سے جب کسی کا کھانا کھانے کو دل نہیں کرتا تھا تو اچار کی یاد آتی تھی۔ شمال کے تقریباً تمام ریسٹورینٹس اور موٹیلز میں چکن کڑاہی ایک کامن ڈش ہے۔ دال اناج دستیاب نہ ہونے کا ریزن یہ ہے کہ اونچائی کی وجہ سے دال گلتی نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ جہاں دال نہیں گلتی وہاں مرغی کیسے گل جاتی ہے۔
Labels:
Pakistan,
Travelogue
Wednesday, August 6, 2014
کمینگی کا تناسب اور آئینے
ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر کمینگی کا تناسب انتہائی درستگی سے معلوم ہوتا ہے,یہ الگ بات کہ ہم میں سے اکثریت اس کا خود سے بھی اقرار نہیں کرتی۔ ورنہ ضمیر کی اتنی مقدار اللہ تعالیٰ نے ہر ایک میں ضرور انسٹال کی ہے کہ وہ اس کو اپنی غلطی کا احساس دلا سکے۔ اب یہ ہر ایک کی اپنی استعداد ہے کہ وہ اس احساس کو کتنی دیر تک اور کتنا گہرا دفن رکھ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے مزے دار بات یہ ہے کہ جو آئینے ہم ہروقت دوسروں کودکھانے کے لئے ہاتھ میں لئے پھرتے ہیں ان آئینوں میں ہم اپنا چہرہ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
Labels:
Ethics & Values
Subscribe to:
Posts (Atom)