دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام، کہتے ہیں کہ ہر بندہ اپنے حصے کا رزق لکھوا کر آیا ہے ۔۔ یعنی جتنا رزق اس کے حصے کا ہے وہ اسے مل کر رہے گا ۔ دوسرے لفظوں میں اس کی زندگی اس رزق پر منحصر ہے نہ وہ ایک دانہ زیادہ کھائے گا نہ ایک دانہ کم ۔۔ پر کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ کیا صرف رزق ہی مقرر ہے ۔۔ یا اس کے علاوہ اور چیزیں بھی ۔۔ مثلاً کہ ہم کتنا علم اس زندگی میں حاصل کریں گے، کتنے ملک دیکھیں گے، کتنے لوگوں سے ملیں گے، کتنا کام کریں گے۔ کتنے دوست بنائیں گے اور کتنے دوستوں سے تعلقات بگاڑیں گے۔
اگر سکندر اعظم کو دیکھیں تو اس نے 32 سال کی عمر میں اس وقت کی دریافت شدہ دنیا میں سے زیادہ تر زمین فتح کر لی تھی ۔۔ پھر کیا ہوا ۔۔ اس کی زندگی میں اتنی ہی فتوحات لکھی تھیں ۔۔ لہذہ پھڑک کے مرگیا ۔۔ اگر دھیرے دھیرے ۔۔ رام نال کام کرتا تو کام بھی چلتا رہتا اور وہ خود بھی ۔۔
جن کی مقرر کردہ چینی کی مقدار پوری ہوجاتی ہے ان کو ذیابطیس کے ذریعے مزید چینی بند کر دی جاتی ہے۔ جن کی مرچ مسالوں کا کوٹا پورا ہوجاتا ہے ان کو السر ہوجاتا ہے اور وہ باقی زندگی آرام سے بغیر مرچوں کا کھانا کھا کر گزارتے ہیں ۔ جن کا گھی تیل پورا ہوجاتا ہے وہ کولیسٹرول سے کنٹرول ہوتے ہیں پھر ۔
موٹر سائیکل کے دن پورے ہوں تو کار کے دن شروع ہوجاتے ہیں ۔۔ کسی کسی کے ساتھ اس کے الٹ ہوتا ہے اور اکثر تو اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں واپس
لڑائی جھگڑوں کا بھی کوٹہ مقرر ہوتا ہوگا ۔۔ اور پنگے لینے کا بھی