Saturday, August 4, 2018

پانی

پہلا منظر: 
ہم نے پانی کا پائپ ڈائریکٹ لائن سے لگایا ہوا ہے اور فل اسپیڈ پانی سے گھر کا ٹوٹا پھوٹا اکھڑا ہوا فرش رگڑ رگڑ کر دھو رہے ہیں اور پورے گھر میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ کھڑکی دروازوں کی دھول بھی پانی کی دھار سے اڑا کر رکھ دی۔ صحن میں پڑے تخت اور چارپائیوں کو بھی نہلا دیا۔ اور آخرمیں پائپ کا فوارہ آسمان کی طرف کر کے خود پر بھی مصنوعی بارش برسالی۔ 

ونس اپان اینڈ اپان اینڈ اپان اے ٹائم کا ذکر ہے ۔ ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی، کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں پانی کی غالباً 36 انچ کی لائن ڈالی گئی۔ گلیوں میں نلکوں کے کنکشنز لگائے گئے۔ ان نلکوں میں 24 گھنٹے پانی آتا تھا اور اتنے زور شور سے آتا تھا کہ کھلے نلکے کے نیچے ہتھیلی ٹکانا ناممکن تھا۔ چھوٹی چھوٹی سی پانی کی ٹنکیاں تھیں جلد بھر جاتی تھیں۔ زیادہ تر کام بھی بہتے چلتے پانی سے ہی ہوجاتے تھے۔ بارشیں بھی ہوتی تھیں۔ حب ڈیم میں پانی تھا۔ 

ہم برسوں کےپانی کی بوند بوند کو ترسے ہوئے مضافاتی، جو صبح دفتر اور اسکول جانے سے پہلے دور کسی پانی کے منبے سے پانی بھرنے کی ڈیوٹی ادا کرتے تھے، جب ہمیں یہ نعمت بے حساب ملی تو ہم نے بھی چھاجوں نہانا اور بہانا شروع کردیا ۔ اس وقت کبھی یہ خیال ہی نہ آیا تھا کہ کبھی یہ نعمت ختم بھی ہوسکتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے والدین کی موجودگی میں کبھی خیال نہیں آتا کہ کبھی والدین کے بغیر بھی زندہ رہنا پڑے گا۔ 

پھر چند سالوں بعد پانی 24 گھنٹوں کے بجائے دن کے بارہ گھنٹے آنے لگا اور گلی میں نلکوں پر پائپ لگانے کی باری پر جھگڑا ہونے لگا۔ تب واٹر بورڈ سے رابطہ کر کے باری باری گھروں میں کنکشن لے لیے گئے، ہر کوئی اپنی آسانی سے پانی بھرنے اور استعمال کرنےلگا۔ لیکن یہ پانی کی کمی کی پہلی علامت تھی جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا تھا ۔ پانی کا پریشر ابھی بھی وہی تھا۔ فکر کی کوئی بات نہیں تھی۔ بس کبھی کبھی رمضان سے پہلے حب نہر کی مرمت کے لیے پانی ہفتے بھر کےلیے بند ہوتا تھا تب گھر کے ہر قسم کے برتن میں پانی اسٹور کر لیا جاتا تھا اور احتیاط سے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ کاہے کی احتیاط اور کاہے کو۔ بارشیں ہورہی تھیں ، حب ڈیم فل ہوتا تھا۔ 

کچھ مزید سال گزرے ۔ اب پانی دوپہر ایک بجے سے شام سات بجے تک آنے لگا۔ پریشر بھی تھوڑا کم ہوگیا تھا لیکن ٹنکی تو بھر جاتی تھی اور اوور ہیڈ ٹینک میں بھی پانی بغیر موٹر کے چڑھ جاتا تھا ۔ فرش ابھی بھی پائپ لگا کر دھویا جاتا تھا لیکن ٹنکی کے نل سے۔ اور کیا چاہیے تھا، اس لیے خطرے کی گھنٹی ابھی بھی نہیں بجی۔ بارشیں اب بھی ہوتی تھیں۔ 

پھر مزید کچھ سال گزرے،پانی پہلے دو دن کے وقفے سے اور پھر تین دن کے وقفے سے آنے لگا، پہلے نلکوں میں سیورج کا پانی آتا تھا، پھر صاف پانی، پریشر بھی مزید کم ہوگیا تھا، اب پانی کی موٹریں بھی گھروں میں آگئی تھیں۔ منہ اور برتن ابھی بھی نلکے کی موٹی دھار سے ہی دھلتے تھے۔ فرش بھی ہفتہ وار نہ سہی دو ایک مہینے میں دھل جاتا تھا ، باقی پوچے سے کام چلا لیا جاتا تھا ۔ کچھ کچھ پریشانی تھی لیکن بہت زیادہ نہیں۔ اور اس پریشانی کا باعث ہم سڑک پار گلی والوں کو ٹھہراتےتھے جو ہماری لائن میں سے کنکشن اپنے نشیبی علاقے میں لے گئے تھے تب ہی سے ہمارا پانی کا پریشر کم ہوا تھا ۔ بارشیں ہورہی تھیں، حب ڈیم کا سپل وے بھی چلتا تھا۔ کینجھر سے متبادل پانی کا بھی انتظام تھا۔ 

پھر مزید وقت گزرا ، اب پانی ہفتے میں ایک دن ہی تین چار گھنٹوں کے لیے بہت کم پریشر سے آنےلگا۔ لہذہ جو افورڈ کرسکتے تھے انہوں نے سکشن پمپ لگا لیے، جب ان کا پانی بھر جاتا تب دوسروں کے گھروں میں پانی آتا۔لیکن کبھی پانی بالکل ہی نہ آئے گا یہ خیال کبھی نہ آیا تھا۔ بارشوں نے منہ موڑ لیا تھا، حب ڈیم ڈیڈ لیول پر پہنچ گیا تھا۔ پانی آتا تو آس پڑوس کو خبر کر دیتے کہ پانی آگیا ہے بھر لو۔ 

صورت حال یہاں تک پہنچی کہ دس بارہ دن میں پانی محض دو گھنٹوں کے لیے آنے لگا اور اس کا بھی کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ دن رات کسی وقت بھی پانی آسکتا تھا، پانی آنے کے متوقع دنوں میں گھر کا ہر بندہ مستقل الرٹ پر رہتا ، راتوں کو اٹھ اٹھ کر بار بار پانی کی لائن چیک کی جاتی ۔ اگر پانی آجاتا تو چپ چاپ اپنی موٹر اور پمپ آن کر لیا جاتا کہ کسی اور کی موٹر چلنے سے پہلے پانی کھینچ لیا جائے۔ ورنہ دوسرے کی موٹر اسٹارٹ ہوگئی تو پانی کا پریشر کم ہوجائے گا اورہمارا ٹینک فل نہ ہوسکے گا۔ بارشوں کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔

آخری منظر: 
سامنے والے پڑوسیوں کے بورنگ سے نمکین پانی لے کر ماربل کے فرش پر پوچا لگایا اور خود بھی نمکین پانی سے نہا کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ کم از کم یہ پانی تو مہیا ہے۔ کیونکہ لائن میں پانی مہینوں سے آنا بند ہوچکا ہے اور میٹھا پانی بہت قیمتی ہے۔ اور بارشیں ،، وہ کیا ہوتی ہیں۔
🌊🌊🌊🌊🌊

یہ مضمون مکالمہ ڈاٹ کام پر 23 جون کو شایع ہوچکا ہے۔