Thursday, September 18, 2025

برسات کی اک رات

پکچر کریڈٹ : ڈان اخبار

کوئی 15/16 سال پہلے کی بات ہے۔ بھائی کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ ساون کا موسم تھا اور میری ماموں زاد بہن کی شادی تھی۔ اور جانا تھا لائنز ایریا۔ لائنز ایریا کی حالت اس زمانے میں بارش کے موسم میں بہت ہی خراب ہوجاتی تھی۔ لائنز ایریا کے بیچوں بیچ ایک نالہ ہے جو اوور فلو ہوجاتا تھا۔ شاید اب بھی ہوتا ہو۔ اور گلیوں میں گوڈے گوڈے پانی ، تنگ و تاریک گلیاں جن میں دن میں نارمل لباس پہن کر بھی گزرنا مشکل ہوتا تھا، کجا شادی کے لیے تیار ہوکر بارش میں گزرنا

خیر ،، موسم آج کل ہی جیسا تھا۔ صبح بارش، شام کو بارش، دوپہر کو بارش ، رات کو بارش ۔۔ اور آج کی صبح جیسا ہی خوشگوار، بندے کا آپے ہی دل چاہے کہ وہ چلے ٹھنڈی ہوا تھم تھم گانا شروع ہوجائے یا پھر آئے موسم رنگیلے سہانے ، جیا نہیں مانے ٹائپ گانے۔ ایسے خوشگوار موسم میں لائنز ایریا مہندی میں جانے کا خیال ہی دل خراب کردیتا تھا۔

تو صاحبو ہم نے اس زمانے میں برانڈ نیو بولان لی تھی ، اور پٹرول بھی سستا تھا بلکہ سی این جی بڑی سستی تھی۔ ہر ویک اینڈ کہیں نہ کہیں جانے کو دل مچل جاتا تھا اور ہم اس کی بات مان جاتے تھے۔ بس اس دن جی سی ویو جانے کو مچل گیا۔ مہندی والوں کو کہا کہ اورنگی ٹاون میں بارش ہورہی ہے ہم نہیں آسکتے ۔ دوپہر کا کھانا کھا کر مہندی میں جانے کی تیاری کرنے کے بجائے سی ویو نکل لیے۔ خوب مزے کیے ،آسمان پہ بادل، ٹھنڈی ہوا، کبھی کبھار پھوار، دل گارڈن گارڈن ہوگیا۔ ساحل پہ لمبی واک کی، بھٹے کھائے، شکر قندی کھائی، چائے پی ۔ سورج ڈوبتا دیکھا۔ اور پھر واپسی کی راہ لی۔ راستے میں اندھیرا ہوگیا، بھوک چمک اٹھی تھی، صابری نہاری کے سامنے سے گزرے تو سوچا گھر جا کر کون باورچی خانے میں وڑے گا ۔ ڈنر یہیں کرلیتے ہیں۔

ڈنر کیا، کوئی آدھا ایک گھنٹہ یا پینتالیس منٹ لگے ہونگے۔ بل دیتے دیتے بارش شروع ہوگئی۔ بارش شروع ہوئی تو پہلا خیال گھر کو شوٹ لگانے کا آیا۔ فوراً ریسٹورنٹ سے نکلے۔ باہر نکلے تو کتے بلیاں، گدھے گھوڑے سب ایک ساتھ برس رہے تھے۔ جیسے تیسے گاڑی میں سوار ہوئے اور چل پڑے۔ یہی غلطی کی۔ ہمیں ریسٹورنٹ میں رک جانا چاہیے تھا چاہے ساری رات رکنا پڑتا۔

ہم تبت سینٹڑ تک پہنچے تھے کہ سڑک پر پانی گاڑی کے پہیوں تک پہنچ چکا تھا۔ اب گاڑی نے ہچکیاں لینی شروع کیں۔ اور فرنٹ ڈورز سے پانی اندر آنا شروع ہوا۔ شہزاد گاڑی چلا رہا تھا۔ ابا نے کہا کہ پہلے گئیر میں لے آو اور گاڑی بند نہیں ہونے دینا۔ وہ بے چارہ ابا کی ہدایت پر عمل کرتا گیا ۔ اور بارش تھی کہ لگتا تھا گاڑی کی چھت میں سوراخ کردے گی ۔ ہوتے ہوتے گاڑی فائنلی آخری ہچکی لے کر بند ہوگئی۔

اب ہم بیچ سڑک پر کھڑے تھے رات کے نو بج رہے تھے۔ ہمارے دائیں بائیں، آگے پیچھے ہمارے جیسےہی ڈیڑھ ہشیار بے وقوفوں کی گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں۔ ہم سے اگے چند گز پر ایک سوزوکی تھی جس پر کسی شادی کے کھانے کی دیگیں لدی ہوئی تھیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہم کیا کریں۔ نیچے اتر کر دھکا لگائیں تو ایک ابا اور ایک بھائی کتنا دھکا لگا سکتے ہیں پانی بہنے کی مخالف سمت میں۔ اور نیچے اتر کر انہوں نے بھی شرابور ہوجانا۔ اچھا خیر سے ہمارے گھر کے دونوں مردوں کے تو گھر میں ہوں تو بھی بارش میں پر بھیگ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ابا اپنے کمرے کی کھڑکی سے بارش دیکھتے رہتے ہیں اور بھائی نہ خود بارش میں نہاتا تھا نہ اپنی بیوی کو، بیوی پہ تو بس نہیں چلتا تھا تو بچوں کو بارش میں جانے سے منع کرتا تھا لیکن یہ قصہ شادی سے پہلے کا ہے ۔۔ خیر

تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ وہ شادی کی دیگوں والی سوزوکی پیچھے آرہی ہے۔ بھائی بولا یہ پیچھے کیوں آرہا ہے۔ ابا نے کہا بیٹے یہ پیچھے نہیں آرہا بلکہ یہ بہہ کر آرہی ہے۔ اس کے ٹائر پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے زمین سے اٹھ گئے ہیں۔ پانی کا ریلا بڑھ گیا ہے۔ ٹائر میں ہوا ہوتی ہے جو پانی سے تو ہلکی ہوتی ہے ،،، ہیں ، ، ، پتا چلا کہ تھوڑی دیر بعد ہم بھی پیچھے جارہے ہیں ۔۔ کہاں جارہے ہیں کچھ پتا نہیں، شاید کیماڑی یا واپس سی ویو، مطلب ہماری گاڑی کے ٹائر بھی زمین چھوڑ چکے ہیں پانی کی زیادتی سے۔ اب ہم امی سمیت ساری خواتین خوفزدہ ہونی شروع ہوئیں کہ یہ کیا ہوگیا اور ابا اوربھائی پریشان۔

بہر حال افرا تفری کی صورت حال تھی، ہر گاڑی ہی پیچھے بہے جارہی تھی، کاروں کا برا حال تھا۔ ایک موٹر سائکل کے دونوں ٹائر پانی سے اوپراٹھے اور وہ دائیں کروٹ لے کر وہی لیٹ گئی۔ دائیں بائیں کی گلیوں سے بارش میں موجیں اڑانے والے، نہانے والے شرارتی قسم کے نوجوان سڑک پر آچکے تھے۔انہوں نے جب گاڑیوں کو بہتے دیکھا اور فیملیز کو پریشان ہوتے دیکھا تو گاڑیوں کو دھکا لگا لگا کر فٹ پاتھوں پر چڑھانا شروع کیا ۔ ہماری گاڑی کو دیکھا اور بھائی کو کہا کہ یار اندر بیٹھ ہو باہر نکلو ، ناچار بھائی کو باہر ڈھائی تین فٹ پانی میں نکلنا پڑا اب یہ تو ہونہیں سکتا کہ اجنبی لوگ آپ کی مدد کریں اور آپ اندر بیٹھے رہیں۔ اللہ ان کا بھلا کرے انہوں نے ہمیں جوبلی والی سڑک پر جہاں پانی نسبتاً کم تھا ادھر نکال دیا ، وہ سڑک سیدھی ہماری ایک خالہ کے گھر کی طرف جاتی تھی۔ سوچا چلو یار خالہ کے گھر ہی چلتے ہیں رات ان کے گھر گزار کر صبح اپنے گھر چلے جائیں گے ۔

لیکن ان کی گلی سے ایک گلی پہلے اتنا پانی تھا کہ ہم ان کی گلی میں نہیں جاسکے گھر جانا تو دور کی بات ۔ اس گلی میں ایک کوڑی تھی، کوڑی یعنی کچرا کنڈی۔ جو باقی سڑک سے نسبتاً اونچی تھی اور اس پر پانی نہیں تھا۔ اب خالہ کے گھر تک پہنچنے کی امید بھی دم توڑ چکی تھی۔ موبائل فونز کا زمانہ نہیں تھا ورنہ شاید ہم ان سے فون پر رابطہ کرتے تو ان کے چار بیٹوں میں سے کوئی تو مدد کے لیے آتا ۔ ابا اور بھائی نے کسی نہ کسی طرح گاڑی اس کوڑی پر چڑھا دی۔ اب تک گاڑی اندر سے بھی شرابور ہوچکی تھی۔ شیشے بند ہونے کی وجہ سے ونڈ اسکرین اے سی نہ ہونے کے باوجود بار بار دھندلی ہوجاتی تھی کیونکہ باہر ٹھنڈ تھی اور اندر ہم سب جو سانس لے رہے تھے وہ جاکر شیشے پر دھند بن جاتا تھا۔

آدھی رات گزر چکی تھی۔ ہم سب کا گیلے ہونے کے سبب اور موسم کی ٹھنڈک کے سبب سردی سے برا حال تھا۔ کپڑے نم تھے۔ اور پھر اس پر نیچر اسٹارٹڈ کالنگ اور سب کی ہی گھنٹیاں بج رہی تھیں ۔۔ کہاں جائیں اتر کر، گاڑی اور کوڑی کی دیوار کے بیچ امی کی چادر یا دوپٹے سے آڑ بنا کر ہم سب باری باری فارغ ہوئے ، گاڑی میں ہی بیٹھ کر الٹی سیدھی پوزیشن میں سونے کی کوشش کی۔ اور وہ نیند جو سولی پر بھی آجاتی ہے وہ کچرا کنڈی پر کھڑی گاڑی میں بھی فائنلی آہی جاتی ہے ۔

صبح کوئی چھ بجے روشنی ہوئی تو آنکھ کھلی، تو اپنی اوقات دیکھی کہ ہم نے کہاں رات گزاری ہے۔ شادی میں جاتے تو کم از کم کسی کے گھر پر تو رات گزارتے لیکن ہم کو تو انجوائے کرنے سی ویو جانا تھا، ٹھیک سے انجوائے ہوگیا ۔ گاڑی کو وہیں لاک کیا، فور کے میں بیٹھے لیاقت آباد پہنچے، ابا لیاقت آباد سے مکینک کو لے کر گاڑی ٹو کرنے گئے کیوں کہ اس نے صبح اسٹارٹ ہونے سے انکار کردیا تھا۔ باقی پبلک وہاں سے سیون اسٹار یا جی ٹین میں گھر کو سدھاری، اور اس طرح لوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔

اور جو گاڑی کے ساتھ ہوئی وہ الگ کہانی ہے۔ نئی نکور گاڑی کا مکو ٹھپ گیا۔ پورا انجن کھولنا پڑگیا۔

💧💦⛅⛈🌀🌂☁