بوزی پاس سے ذرا پہلے، مکران کوسٹل ہائی وے، سطح سمندر سے تقریباً 250 میٹر کی بلندی پر |
"دادو ۔۔۔ کب آئے گا "
یہ وہ سوال تھا جو ہمارے پیر پٹھو/سخی داتار کے سفر کے دوران فاطمہ نے بیسیوں بار ابو سے پوچھا ہوگا ۔ ہم سویرے سویرے پیرپٹھو ، ٹھٹہ کے لیے گھر سے چلے تھے ۔ لیکن راستے میں پیالہ ہوٹل پہ ناشتہ وغیرہ کرتے کچھ وقت گزرا، پھر ہم نے ایک نئے راستے سے بذریعہ سجاول بائی پاس جانے کا فیصلہ کیا جو شاید ٹھٹہ میں سے گزرنے کی نسبت زیادہ طویل لیکن رش سے مبرا تھا ۔ سو جب ہم اپنے میزبانوں کے ہاں پہنچے تو تقریباً رات ہو چکی تھی ، درمیان پر ایک جگہ لنچ کے لیے بھی رکے ۔ جہاں ہم جارہے تھے فاطمہ وہاں بچپن سے جاتی ہے۔ کئی بار جاچکی ہے، وہاں ہر سائز اور عمر کے بچے ہوتے ہیں جو اردو بالکل نہیں جانتے لیکن بچوں کا ڈاک خانہ زبان کی سرحدوں سے بلند و بالا ہوتا ہے۔ سو اس کی بچوں کے ساتھ خوب بنتی ہے۔ پھر وہاں گائے، گدھے، مرغیاں، بلی کتے اور بکریاں وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو اسکا دل خوب لگتا ہے۔ اب کچھ تو راستے کی طوالت اور کچھ وہاں مزے کرنے کی جلدی نے فاطمہ کو بیزار کیا ہوتا تھا اور اس نے بار بار ابو سے " دادو کب آئے گا" پوچھ پوچھ کر باقیوں کو بے زار کر دیا تھا ۔